Bharat Express

Maulana Arshad Madani

 سیلاب سے متعددگاؤں پوری طرح تباہ ہوچکے ہیں،ہزاروں کی تعدادمیں لوگ اب بھی کیمپوں میں رہ رہے ہیں، ان میں سے بعض متاثرین ایسے بھی ہیں جواب وہاں سے دورکسی دوسری جگہ کرایہ پر رہ رہے ہیں، جمعیۃعلماء کے ذریعہ انہیں بھی کھانے پینے کی اشیاء فراہم کی جارہی ہیں۔

اترپردیش، مدھیہ پردیش اورراجستھان میں ملزمین پرحال ہی میں بلڈوزر کارروائی کی گئی، جس کے خلاف اب جمعیۃ علماء ہند نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی ہے۔ ساتھ ہی جمعیۃ علماء ہند نے الزام لگایا ہے کہ اقلیتی طبقے کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

اتراکھنڈ ہائی کورٹ کی دو رکنی بینچ کے جسٹس پنکج پروہت اورجسٹس منوج کمار تیواری نے یہ فیصلہ صادرکیا۔ مولانا ارشد مدنی کی ہدایت پر جمعیۃ علماء ہندنے ملزمین کو قانونی امداد فراہم کی۔

مولانا ارشدمدنی نے کہا کہ وقف پر حکومت جو ترمیمی بل لے کرآئی ہے اس سے ہمارے مذہب اوراوقاف پر ضرب پڑتی ہے اس بل سے ہماری اقتداراورہمارے اصول متاثرہوتے ہیں اس لئے  ہمیں اس کے خلاف احتجاج کرنے کا حق ہے۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اورجمعیۃ علماء ہند کا ایک مشترکہ وفد 20 اگست کو تمل ناڈوکے وزیراعلیٰ ایم کے اسٹالن سے بھی ملاقات کرنے والا ہے۔ بہار سمیت دوسری ریاستوں میں بھی جمعیۃعلماء کے اراکین سیاسی پارٹیوں کے قائدین اورجے پی سی ممبران سے ملاقاتیں کرکے مجوزہ بل کے نقائص اور اس کے خطرناک مضمرات سے انہیں روشناس کرارہے ہیں۔

کیرلا کے وائناڈ ضلع میں جو بھیانک تباہی ہوئی ہے، اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ 600 سے زیادہ لوگوں کی اموات ہوچکی ہیں اورہزاروں لوگوں کوبے گھرہونا پڑا ہے، راحت رسانی کا کام مسلسل جاری ہے۔ اس سلسلے میں جمعیۃ علماء ہند نے بھی بڑا قدم اٹھایا ہے۔

جمعیةعلماء ہند یہ واضح کردینا چاہتی ہے کہ وقف جائیدادیں مسلمانوں کے بزرگوں کے دیئے ہوئے وہ عطیات ہیں، جنہیں مذہبی اورمسلم خیرات کے کاموں کے لئے وقف کیا گیا ہے، حکومت نے بس انہیں ریگولیٹ کرنے کے لئے وقف ایکٹ بنایا ہے۔

جمعیۃ علماء کی گذارش پر سپریم کورٹ کی سینئر ایڈوکیٹ نتیا راما کرشنن نے 50 ملزمین کی رہائی کے لئے اترا کھنڈ ہائی کورٹ میں ضمانتی عرضداشتوں پر بحث شروع کی۔

ممتاز مسلم تنظیم جمعیۃ علماء ہند نے ہفتہ (20 جولائی) کو اتر پردیش میں کانوڑ یاترا کے راستے پر دکانداروں کے نام ظاہر کرنے کے حکم پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک 'امتیازی اور فرقہ وارانہ' فیصلہ ہے اور اس سے آئین میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔

جمعیۃ علماء ہند نے کل اپنی لیگل ٹیم کی ایک میٹنگ طلب کی ہے، جس میں اس غیرآئینی، غیر قانونی اعلان کے قانونی پہلوؤں پرغوروخوض کیا جائے گا۔ اس کے بعد جمعیۃ علماء ہند اس کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن داخل کرسکتی ہے۔