Bharat Express

Gaza Under Attack

حماس نے بدھ کو فلسطینی اسلامی جہاد کے ساتھ ایک مشترکہ بیان جاری کیا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ کسی سمجھوتے سے کم کو قبول نہیں کرے گا جس میں ایک جامع جنگ بندی اور غزہ پٹی سے اسرائیلی افواج کا مکمل انخلاء شامل ہے۔

مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کو خبردار کیا ہے کہ غزہ میں جنگ کے علاقائی سطح پر پھیلنے کے خطرے کا ’’تصور کرنا مشکل‘‘ ہے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں جنگ بندی فلسطینی ریاست کو وسیع تر بین الاقوامی تسلیم کرنے اور دو ریاستی حل کے نفاذ کا آغاز ہونا چاہیے کیونکہ یہ خطے میں استحکام کا بنیادی ضامن ہے۔

اعلیٰ سطح کے ذرائع نے بتایا ہے کہ مصری جنرل انٹیلی جنس کے سربراہ عباس کامل کی قیادت میں مصری سیکورٹی وفد حماس اور اسرائیل کے بیچ نقطہ ہائے نظر کو قریب لانے کی کوشش کرے گا۔ اس کا مقصد جلد از جلد جنگ بندی کو ممکن بنانا ہے۔

ایک فلسطینی اہلکار نے کہا کہ اگر اسرائیل اس تجویز کو قبول کرتا ہے تو ہماری کوششوں سے ایک فریم ورک تیار ہو جائے گا۔ اس سے غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان 9 ماہ سے جاری جنگ کا خاتمہ ہو جائے گا۔

خبر رساں ایجنسی ژنہوا کی رپورٹ کے مطابق پیر کو اسرائیل کے نیشنل سیکیورٹی کالج کے کیڈٹس کے ساتھ ایک میٹنگ ہوئی جس میں انہوں نے کہا کہ ہم حماس کو ختم کرنے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

اسرائیل اس وقت اپنے مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے، ایک طرف غزہ میں جنگ بندی کے لیے اس پر شدید بین الاقوامی دباؤ ہے تو دوسری جانب حماس کی قید سے یرغمالیوں کی رہائی کے لیے اسرائیلی شہروں میں مسلسل احتجاج جاری ہے۔

طبی ذرائع کا کہنا ہے کہ ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔ شہری دفاع کی ٹیمیں اب بھی ملبے سے لاشوں اور زخمیوں کو نکالنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

حماس نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں بے دفاع شہریوں کو وحشیانہ نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے، اور الشطی کیمپ، المواسی اور رفح میں نئے قتل عام کیے ہیں۔

صلاح الدین روڈ جنوبی غزہ کے ایک شہر رفح کے جنوب سے گزرتی ہے جہاں اسرائیلی افواج اپنے حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسرائیل رفح کو فلسطینی جنگجو گروپ حماس کا آخری گڑھ سمجھتا ہے۔

امریکی تجویز میں پائیدار جنگ بندی ہے نہ ہی غزہ کی پٹی سے مکمل اسرائیلی انخلا شامل ہے،یہ ایک سازش ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ تین مراحل کے درمیان باہمی ربط اور ٹائم ٹیبل بھی موجود نہیں ہے۔ یہ 42 دنوں کے لیے جنگ بندی ہے جس میں متعدد قیدیوں کے تبادلے کے ساتھ کچھ اہل علاقوں سے دشمن کا انخلا شامل ہے۔