Bharat Express

CJI Chandrachud

اس سال کے شروع میں، جسٹس دیواکر کے نام کی سفارش الہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے کے لیے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی قیادت والی کالجیم نے کی تھی اور جسٹس دیواکر کو 13 فروری 2023 کو الہ آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس کے طور پر مقرر کیاگیا۔انہوں نے 26 مارچ 2023 کو چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھایا۔

سی جے آئی چندرچوڑنے کہا کہ یہ شہریوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچاتا ہے اور ملک میں ہماری عدالت کی اچھی شبیہ نہیں دکھاتا ہے۔عدالت نے نوٹ کیا کہ ستمبر اکتوبر کے مہینے میں وکلاء کی جانب سے 3,688 التواء کی پرچیاں جاری کی گئیں۔ بنچ نے نوٹ کیا کہ آج 178 ملتوی پرچیاں تھیں۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے، چیف جسٹس نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ کس طرح سپریم کورٹ کے 2018 میں متفقہ طورر پر ہم جنس پرستی کو جرم قرار دینے کے فیصلے نے ہم جنس پرستوں کی شادی کو تسلیم کرنے کے لیے درخواستیں دائر کی گئیں۔ پانچ رکنی آئینی بنچ کے تمام ججوں نے اتفاق کیا کہ شادی میں مساوات لانے کے لیے قوانین میں ترمیم کرنا پارلیمنٹ کا کردار ہے۔

ایڈوکیٹ  نیڈومپارا نے کہا کہ وہ آئینی بنچ کے معاملات کی سماعت کرنے والی عدالت کے خلاف نہیں ہیں، لیکن ان کا اعتراض عدالت میں عوامی پالیسی کے معاملات کو عوام کو سنے بغیر سننے پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوام کی بات نہیں سنی جاتی۔

مجرمانہ مقدمات میں سزا یافتہ رہنماؤں کو زندگی بھر الیکشن لڑنے سے روکنا پڑ سکتا ہے۔ یہ تب ہو گا جب سپریم کورٹ اپنے امیکس کیوری (عدلیہ دوست)کے مشورے کو قبول کرے گی۔ سیاست کے مجرمانہ عمل کو روکنے سے متعلق ایک درخواست میں ایمیکس کیوری نے عدالت کو مشورہ دیا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جانبدارانہ رپورٹنگ سے عوام میں یہ شک بھی پیدا ہوتا ہے کہ اس شخص نے جرم کیا ہے۔ میڈیا رپورٹس متاثرین کی رازداری کی بھی خلاف ورزی کر سکتی ہیں۔ بعض صورتوں میں شکار نابالغ ہو سکتا ہے۔ متاثرہ شخص کی پرائیویسی متاثر نہیں ہونی چاہیے۔

سی جے آئی ڈی وائی چندر چوڑ، جسٹس سنجے کشن کول، جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس بی آر گوائی اور جسٹس سوریہ کانت کی آئینی بنچ آرٹیکل 370 پر سماعت کر رہی ہے۔

آج، نہ صرف گجرات حکومت نے یہ استدلال کیا کہ معافی قانونی تھی اور اسے قانون کے تحت جانچنے کے لیے درکار تمام عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے دیا گیا تھا، بلکہ اس نے سزا کے اصلاحی نظریہ کو بھی پیش کیا۔ریاستی حکومت کی جانب سے پیش ہونے والے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل ایس وی راجو سے بنچ نے پوچھا کہ اس معافی کا مقصد کیا ہے؟

مرکز نے مشورہ دیا ہے کہ جب یہ بہت ضروری ہو، تبھی عدالت کسی افسر کو ذاتی طور پر حاضر ہونے کو کہے۔ اس دوران اس کے لباس پر غیر ضروری تبصرہ نہیں کرنا چاہیے۔مرکزی حکومت یہ بھی چاہتی ہے کہ کسی افسر کے خلاف توہین کا مقدمہ ان احکامات کی عدم تعمیل پر ہونا چاہیے، جن پر عمل کرنا اس کے لیے ممکن تھا۔

چیف جسٹس چندر چوڑ نے کہا، "عدالتی نظام کی طاقت انصاف فراہم کرنا ہے، اگر کسی شخص کو من مانی گرفتاری، انہدام کی دھمکی، جائیدادوں کی غیر قانونی ضبطی کا نشانہ بنایا جاتا ہے، تو ایسے شخص سپریم کورٹ کے ججوں سے ہمت  حاصل کرنی چاہیے۔