جموں و کشمیر میں آرٹیکل 370 سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد نظرثانی کی درخواست داخل کی گئی ہے۔
Article 370: آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد سپریم کورٹ میں اس کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر سماعت جاری ہے۔ جمعرات 17 اگست کو ہوئی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے آرٹیکل 370 پر ایک اہم تبصرہ کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ کہنا درست نہیں ہے کہ آرٹیکل 370 کو آئین میں مستقل حیثیت حاصل ہے۔ آئینی فریم ورک میں اس کے استحکام کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ سپریم کورٹ نے درخواست گزاروں کی طرف سے دی گئی دلیل سے اختلاف کرتے ہوئے یہ جواب دیا۔
درخواست گزار کے وکیل نے دیئے دلائل
سی جے آئی ڈی وائی چندر چوڑ، جسٹس سنجے کشن کول، جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس بی آر گوائی اور جسٹس سوریہ کانت کی آئینی بنچ آرٹیکل 370 پر سماعت کر رہی ہے۔ اس بنچ کے سامنے بحث کرتے ہوئے سینئر ایڈوکیٹ راجیو دھون نے کہا، “ریاستوں کی خود مختاری ہمارے آئین کی بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔” انہوں نے کہا کہ یہ خصوصی انتظام نہ صرف جموں و کشمیر کے لیے ہے بلکہ کئی دیگر ریاستوں کو بھی یہ حق حاصل ہے۔
انہوں نے سپریم کورٹ بنچ سے کہا کہ اس معاملے میں گورنر کی رپورٹ بھی پارلیمنٹ کے سامنے پیش نہیں کی گئی، اسے پارلیمنٹ اور عوام کے سامنے ظاہر کرنا ضروری ہے۔ اس لیے صدر راج کے پورے عمل کی جانچ ہونی چاہیے۔
چیف جسٹس نے دیا جواب
اس پر چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڑ نے کہا کہ صدر کے پاس آرٹیکل 356 کے تحت آئین کی بعض دفعات کو معطل کرنے کا اختیار ہے۔ بنچ نے کہا کہ جنوری 1957 میں جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کی تحلیل کے بعد صرف آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کے انتظام کو غیر موجود نہیں سمجھا جا سکتا۔ آرٹیکل 370 کے کچھ حصے اگلے 62 سالوں تک نافذ رہے۔
عرضی گزاروں میں سے ایک رفعت آرا بٹ کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر ایڈوکیٹ دشینت دوے نے دلیل دی کہ جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے بجائے آرٹیکل 370 کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، اس کے بعد اس شق کو کوئی بھی منسوخ نہیں کر سکتا۔ بعد کا ایکٹ تاہم سپریم کورٹ کی بنچ نے اس دلیل سے اتفاق نہیں کیا۔
-بھارت ایکسپریس