Bharat Express

 ماضی میں بھی اس طرح کے دوروں نے کافی دو طرفہ ضرورتوں کی عکاسی کی ہے، جس میں ہماری ضروریات واضح طور پر زیادہ تھیں۔ لیکن اس بار اس دورے پر امریکہ کی فہرست ہماری ضروریات سے زیادہ لمبی نکلی ہے۔

بے شک جمہوریت میں عوامی مینڈیٹ سے منتخب ہوئی حکومت کا یہ خصوصی اختیار ہوتا ہے کہ وہ عوام کو کیا اور کیسی سہولیات دے، لیکن معیشت کے ماہرین اسے ملک اور ریاست کی معاشی صورتحال کے لئے سنگین وارننگ بتا رہے ہیں۔

تمام اشاریہ جات کی ان درجہ بندیوں کی تاریخ اور زمینی صورت حال سے اس کا موازنہ کیا جائے تو سارا بھارت مخالف کھیل سمجھ میں آتا ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ جنگ شروع ہوئے ایک سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن کوئی نہیں جانتا کہ جنگ کیسے رکے گی؟ تاریخ میں کئی بار دنیا کا چودھری بننے والا امریکہ بھی اس بار بے بسی سے بھارت کی طرف دیکھ رہا ہے۔

پارلیمنٹ کی نئی عمارت بھی غلامی کی ذہنیت کو ترک کرنے کی پہلی مثال نہیں ہے۔ مودی حکومت نے اپنے دور اقتدار میں ایسے کئی قدم اٹھائے ہیں جس کی وجہ سے ملک تیزی سے اس ذہنیت سے نجات کی طرف بڑھ رہا ہے۔

پاکستان میں یہ چرچا بھی ہے کہ فوج نے عمران کے سامنے دو شرطیں رکھی ہیں ایک وہ اپنے پیش رو نواز شریف اور پرویز مشرف کی طرح سیاست چھوڑ کر لندن بھاگ جائے یا پاکستان میں رہ کر آرمی ایکٹ کا سامنا کریں۔

کرناٹک میں ای وی ایم کی گنتی شروع ہونے سے پہلے ہی جس طرح سے کانگریس کے حامیوں نے دہلی سے بنگلورو تک جشن منانا شروع کیا وہ بھی بدلے ہوئی کانگریس کے بڑھتے ہوئے اعتماد کو ظاہر کرتا ہے۔

چین کو امریکہ سے سیکھنا چاہیے کہ طاقتور ترین رہنے پر اصرار کتنا مہنگا پڑ سکتا ہے۔ آٹھ دہائیوں تک امریکہ دنیا کا سب سے طاقتور اور امیر ترین ملک رہا لیکن جنگ کی تیاریوں اور جدید ترین اور مہنگے ہتھیاروں کے بل بوتے پر دنیا پر حکمرانی کے منصوبے نے اسے آج غربت کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔

جرمنی کی اپنی 'ریل' پیچھے کی طرف جانے والی ہے۔

وجہ کچھ بھی ہو، سناتم دھرم کے بنیادی منتر وسودھیو کٹمبکم کو نہ صرف اپنانا، بلکہ اس کو پوری دنیا میں پھیلانے والے ملک اور اس کے ہم وطنوں کے ساتھ اس طرح کا برتاؤ یقیناً حیرت کا باعث ہے۔ برطانیہ کے اسکولوں کی حقیقت نے ایک بار پھر اس مسئلے کو توجہ میں لایا ہے۔