Bharat Express

تمام سرکردہ ممالک کے رہنما دہلی میں جمع ہیں۔ جی 20ممالک مل کر عالمی جی ڈی پی کا تقریباً 85 فیصد، عالمی تجارت کا 75 فیصد سے زیادہ اور دنیا کی آبادی کا تقریباً دو تہائی حصہ پر مشتمل ہے۔

انڈیا اتحاد کے لیے اچھی بات یہ ہے کہ پوار نے اتحاد کے پیچھے اپنی پوری طاقت جھونک دی ہے اور اس مخمصے کو ختم کر دیا ہے جس کا وہ پچھلے کچھ دنوں سے اپنے سیاسی مستقبل کے حوالے سے سامنا کر رہے تھے۔ ایسے میں اتحاد میں شامل لیڈران بھی کسی بھی طرح پوار کو ناراض کرکے دوبارہ اسی مخمصے میں پڑنے کی صورتحال پیدا نہیں کرنا چاہیں گے

آج یہ ثابت ہو گیا ہے کہ بھارت کی ساکھ دنیا میں صرف اس کی سفارتکاری کی وجہ سے بڑھی ہے۔ پی ایم مودی کی سفارت کاری کا لوہا روس کے ساتھ ساتھ امریکہ نے بھی قبول کیا ہے، جب کہ چین اس محاذ پر مسلسل پیچھے ہے۔ چین کی شبیہ نہ صرف مغربی ممالک بلکہ وسط ایشیائی ممالک میں بھی خراب ہوئی ہے

ترقی کے نام پر حکومتیں جس طرح سے قوانین میں تبدیلی کرتی ہیں وہ بھی فطرت کو نقصان پہنچانے کی ایک بڑی وجہ ہے۔

آج کا بھارت 80 کروڑ لوگوں کو مفت راشن دیتا ہے جبکہ پاکستان میں ایک کلو آٹے کے لیے بھی لڑائی ہوتی ہے۔ بھارت خوشی اور خوشحالی کی علامت ہے جب کہ پاکستانی عوام دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چند سالوں سے پاکستانی عوام کی جانب سے بھارت کی مودی جیسی حکومت کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے

درحقیقت ضرورت کا معاملہ یہیں سے ختم ہوتا ہے اور سیاسی مجبوری کی کہانی شروع ہوتی ہے۔ کرناٹک کے حالیہ انتخابات میں جس طرح سے اس مطالبے نے پسماندہ ذات کے ووٹروں کو متحرک کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا، اس سے یہ یقینی ہے کہ یہ 2024 میں ایک بڑا انتخابی مدعا بن جائے گا۔

موسمیاتی تبدیلی اور اس کے اثرات انسانوں کے لیے کوئی تعجب کی بات نہیں۔ کئی دہائیوں سے سنتے آرہے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے رونما ہونے والی سنگین صورتحال تہذیب و ثقافت کے لیے تباہی کا باعث بن سکتی ہے۔

فرانس کے دارالحکومت پیرس میں باسٹیل ڈے پریڈ میں وزیر اعظم نریندر مودی کی موجودگی یقیناً 140 کروڑ ہم وطنوں کے لیے قومی فخر کی بات ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ وزیر اعظم مودی کا شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں دہشت گردی کے خلاف متحد ہونے کا پوری دنیا کو تاریخی پیغام پوری انسانیت کے لیے ایک وژنری دستاویز ہے۔

ویگنر کی بغاوت سے ان کی ساکھ کو لگنے والے دھچکے کا سب سے خطرناک اثر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پوتن یوکرین کو فتح کرنے سے پہلے ہی اپنی طاقت کی شبیہ کو بحال کرنے کی کوشش میں یوکرین کی حمایت کرنے پر مغربی ممالک کو سزا دینے کی جرات کردیں۔