گلوبل بوائلنگ کے دور میں دنیا۔۔۔ ابھی تو یہ شروعات ہے
کیا دنیا ایک دور کی تبدیلی کے دہانے پر کھڑی ہے؟ اگرآپ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس سے اتفاق کرتے ہیں تو اب وہ حد بھی پار ہوگئی ہے۔ گوٹیرس کے مطابق، دنیا گلوبل وارمنگ کے دورکوختم کر کے گلوبل بوائلنگ کے دور میں داخل ہو چکی ہے۔ اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو قدرت بھی کچھ ایسے ہی اشارے کر رہی ہے۔ ایک ہی وقت میں دنیا میں کہیں سمندرمیں طغیانی اپنے عروج پر ہے، تو کہیں سیلاب سے تباہی مچ رہی ہے، کہیں خشکی کا خطرہ منڈلا رہا ہے، تو کہیں برف سے جمی ہوئی زمین گرم درجہ حرارت سے جل رہی ہے۔ سرد پہاڑوں اورسرد موسم کے لئے مشہور یورپ، امریکہ اور چین جیسے ممالک گرمی کی لہر سے جھلس رہے ہیں۔ شمالی امریکہ کی ڈیتھ ویلی میں درجہ حرارت 128 ڈگری فارن ہائیٹ یعنی 53.3 ڈگری سیلسیس تک پہنچ گیا۔ وہیں ایریزونا کے شہر فینکس میں مسلسل 25 دنوں سے درجہ حرارت 43 ڈگری سیلسیس سے زیادہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ چین میں اس ماہ کی شروعات میں پارہ 52.2 ڈگری سیلسیس تک پہنچ گیا، جو اس کی تاریخ میں اب تک کا سب سے زیادہ درجہ حرارت ہے۔ یورپی ممالک اسپین اور اٹلی میں بھی درجہ حرارت 49 ڈگری سیلسیس تک پہنچ گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے محکمہ موسمیات اور یورپی یونین کی کلائمیٹ چینج سروس کے سائنسدانوں نے ایک تحقیق کے بعد کہا ہے کہ جولائی کا یہ درجہ حرارت زمین پر تقریباً 1,20,000 سالوں میں تجربہ کیا جانے والا سب سے زیادہ درجہ حرارت ہے۔
ہندوستان کی بات کریں تو ہماچل پردیش، جموں کشمیر، اتراکھنڈ، مہاراشٹر، آندھرا پردیش، تلنگانہ اور راجستھان سمیت ملک کی کئی ریاستوں میں سیلاب اور بارش کی وجہ سے صورتحال بدتر ہوگئی ہے۔ دارالحکومت دہلی جو گزشتہ کچھ سالوں میں گرم اور زیادہ گرم والے دو موسموں کا شہر بن گئی تھی، وہاں بھی شہر کی لائف لائن جمنا ندی نے اپنے پیر پھیلا کر لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ دوسری جانب اتر پردیش، بہار اور جھارکھنڈ میں بارشوں کی کمی کی وجہ سے خشک سالی کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔
عالمی سائنس دانوں کا ایک گروپ ڈبلیو ڈبلیو اے یعنی ورلڈ ویدر ایٹریبیوشن واضح طورپرکہتا ہے کہ یہ موسمیاتی تبدیلی کے بغیرممکن نہیں ہے۔ اپنے تجزیے پر رواں ہفتے جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ آج کے ماحول میں امریکہ اورمیکسیکو کو ہر15 سال میں ایک بار، جنوبی یورپ کو ہر 10 سال میں اور چین کو ہر پانچ سال میں ایک بار ایسی صورتحال کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ صورتحال اس سے بھی بدتر ہو سکتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اگر زمین کا اوسط درجہ حرارت صنعتی دور سے پہلے کی سطح سے 2 ڈگری سیلسیس بڑھتا ہے تو دنیا کو سب کچھ جھلسا دینے والی یہ گرمی جھیلنی پڑ سکتی ہے۔
وہیں ایک نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ گلوبل وارمنگ پہاڑوں پر ہونے والی برفباری کو شدید بارش میں تبدیل کر رہی ہے۔ ایسا نہ صرف اب بلکہ کئی دہائیوں سے ہوتا آ رہا ہے جس کا اثر دنیا کی کم از کم ایک چوتھائی آبادی پر نظر آئے گا۔ تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ درجہ حرارت میں ہر ایک ڈگری اضافے کے بعد پہاڑوں پر ہونے والی 15 فیصد برفباری شدید بارش میں تبدیل ہو رہی ہے۔ یعنی گلوبل وارمنگ کی وجہ سے برفباری کے بجائے شدید بارشیں ہونے لگی ہیں جو آنے والے وقت میں پہاڑوں پر تباہی مچانے والی ہیں اور اس کی وجہ سے دنیا کو لینڈ سلائیڈنگ، شدید سیلاب جیسے کئی سنگین نتائج دیکھنے کو ملیں گے۔ لہٰذا جب دنیا گلوبل وارمنگ کو 2 ڈگری سیلسیس تک محدود کرنے کی کوشش کر رہی ہے، اس تحقیق کے مطابق یہ بھی ناکافی ہوگا کیونکہ ایک ڈگری کا اضافہ ہی تباہی لانے کے لیے کافی ہے۔
اگر ہم خود اپنے ملک پر نظر ڈالیں تو یہاں پر شدید موسمی واقعات میں اضافے کا پیمانہ ہر گزرتے سال کے ساتھ نئی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ سال 2023 کی شروعات اگر سردی کی بجائے زیادہ گرمی سے ہوئی تو فروری کے درجہ حرارت نے 123 سال پرانے دنوں کی یاد تازہ کر دیے۔ مشرقی اور وسطی ہندوستان میں اپریل اور جون میں امس بھری گرمی موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے 30 گنا زیادہ ہوگئی تھی۔ اسی دوران سمندری طوفان بپرجوائے بحر عرب میں 13 دن تک سرگرم رہا اور تقریباً دو ہفتوں کی اس سرگرمی کی وجہ سے یہ گزشتہ 45 سالوں میں سب سے طویل مدت کا طوفان بن گیا۔ ہندوستان میں مون سون کے دنوں میں کئی علاقوں میں سیلاب کی صورتحال کا سامنا کرنا ایک عام سی بات ہے۔ لیکن اس سال صورتحال مختلف اور سنگین ہے۔ شمالی ہندوستان میں مون سون اور ویسٹرن ڈسٹربنس کے ایک ساتھ آنے کی وجہ سے ہمالیائی علاقوں میں سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کے واقعات پیش آئے۔ گزشتہ چند دہائیوں میں ہمالیہ کے گلیشیئرز بھی 10 گنا تیزی سے پگھلے ہیں جس کی وجہ سے آج وہ اپنا 40 فیصد حصہ کھو چکے ہیں۔ یہی حال آرکٹک اور انٹارکٹک کا بھی ہے جس کی وجہ سے زمین اور تباہی کے درمیان فاصلہ مسلسل کم ہو رہا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی اور اس کے اثرات انسانوں کے لیے کوئی تعجب کی بات نہیں۔ کئی دہائیوں سے سنتے آرہے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے رونما ہونے والی سنگین صورتحال تہذیب و ثقافت کے لیے تباہی کا باعث بن سکتی ہے۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ آنے والے وقت میں گرمی کے ساتھ ساتھ امس میں مزید اضافہ ہوگا۔ 40 ڈگری سیلسیس کا درجہ حرارت اس صدی کے وسط تک سالانہ 20 سے 50 بار ہو سکتا ہے۔ تمام ریسرچ سنگین صورتحال کی طرف ہی اشارہ کر رہی ہے۔ حال ہی میں عالمی محکمہ موسمیات نے اعلان کیا تھا کہ دنیا میں ال نینو کا اثر ظاہر ہونا شروع ہو گیا ہے۔ بحرالکاہل میں پیش آنے والا یہ خاص واقعہ پوری دنیا میں گرمی بڑھانے کا کام کرتا ہے۔ شروعات بحر روم بحرالکاہل کے سطحی پانی کے گرم ہونے سے ہوتی ہے اور اس کا اثر ہندوستان کے مون سون پر پڑتا ہے اور اس کے اثرات یورپ اور امریکہ میں بھی نظر آتے ہیں۔ مغربی ممالک بالخصوص یورپ اپنے خوشگوار موسم کے ساتھ ساتھ دیگر کئی خصوصیات کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ ان ممالک کا دورہ کرنے کا میرا اپنا تجربہ بہت خوشگوار رہا ہے۔ لیکن وہاں کی صورتحال سے یہی پتہ چلتا ہے کہ یورپ کی یہ پہچان آج شدید مشکلات کا شکار ہے۔
لیکن موسمیاتی تبدیلی کو ایک ولن کے طور پر پیش کرنے سے کام نہیں چلے گا۔ اصل ولن تو ہم ہیں۔ اگر ہم نے تیل، کوئلہ اور گیس جلا جلا کر اپنے اپنے حصے کی زمین کو گرم نہ کیا ہوتا تو ایسی سنگین صورتحال پیدا نہ ہوتی، اگر ہوتی بھی تو بہت کم ہوتی۔ لیکن اندھا دھند ترقی کی دوڑ میں فوسل فیول جلانے کی دوڑ نے اسے ایک عام عمل بنا دیا ہے۔ صاف ہے کہ اگر ہم اب بھی نہیں سنبھلے تو قدرت بھی ہمیں زیادہ موقع نہیں دے گی۔ شاید اس کی شروعات ہو چکی ہے۔
بھارت ایکسپریس۔