روس اور یوکرین کے درمیان تنازعات میں اضافہ- کیا پھر نکلے گی ایٹمی حملے کی تلوار؟
Increased conflict in Russia-Ukraine: روس یوکرین جنگ میں ایک بار پھر عالمی جنگ کی آہٹ سنائی دے رہی ہے۔ گزشتہ ہفتے یوکرائنی ڈرون نے ماسکو کے رہائشی علاقوں کو نشانہ بنایا جسے روس نے فوری طور پر ماسکو پر سات دہائیوں میں سب سے مہلک حملہ قرار دیتے ہوئے اسے دوسری جنگ عظیم سے جوڑ دیا۔ روسی رکن پارلیمنٹ میکسم ایوانوف نے اس حملے کا موازنہ دوسری جنگ عظیم میں نازی جرمنی کے حملے سے کیا اور کہا کہ اس سے ثابت ہوا کہ روسی شہروں پر یوکرین کے حملے صرف الزامات نہیں بلکہ حقیقت ہیں۔ بلاشبہ ان حملوں سے روس کو کوئی خاص جانی و مالی نقصان نہیں ہوا لیکن یہ بات اہم ہے کہ جن علاقوں کو نشانہ بنایا گیا وہ روسی صدر ولادی میر پیوٹن اور ملک کے چند امیر ترین افراد کی رہائش گاہیں بھی ہیں۔ تاہم، حملہ کے وقت پوٹن کریملن میں تھے۔ یوکرین نے حملے میں براہ راست ملوث ہونے کی تردید کی تاہم سرکاری طور پر اس واقعے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ایسے مزید حملوں کی پیش گوئی کی ہے۔ تقریباً چار ہفتے قبل بھی روس نے الزام لگایا تھا کہ دو ڈرونز نے پوتن کو مارنے کی کوشش میں کریملن کو نشانہ بنایا تھا۔ اگرچہ اس وقت پوٹن وہاں سے تقریباً 25 کلومیٹر دور نوو اوگریوا میں اپنی سرکاری رہائش گاہ پر تھے۔ اس نام نہاد حملے کے بعد روس میں یوکرین پر جوہری حملے کا مطالبہ زور پکڑتا دکھائی دے رہا تھا۔ روسی پارلیمنٹ کے اسپیکر نے بھی ایٹمی حملے کی حمایت کرتے ہوئے صدر پیوٹن پر حملے کو روس پر حملہ قرار دیا۔ روس کا جوہری نظریہ یہ ہے کہ جب ملک کا وجود خطرے میں ہو تو روسی فوج جوہری قوتوں کا استعمال کر سکتی ہے۔ ان حملوں کے علاوہ روس کے سرحدی علاقے بیلگوروڈ پر اس ہفتے دو مرتبہ گھیرا تنگ کیا گیا ہے۔ یوکرین نے پہلے حملے کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا تھا کہ یہ روسی جنگجوؤں کا کام تھا لیکن یوکرین نے دوسرے حملے میں اپنے ملوث ہونے کی نہ تو تصدیق کی ہے اور نہ ہی تردید کی ہے۔
یہاں اس واقعے کے حوالے سے امریکہ کا حال عجیب ہو گیا ہے۔ یوکرین پر روسی حملوں کے جواب میں، اس کا ردعمل واضح اور جارحانہ ہے، لیکن جب بات ماسکو پر یوکرین کے ڈرون حملوں کی ہو تو یہ دفاعی انداز میں ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ جب سے جنگ شروع ہوئی ہے، یوکرین کو اسلحے کی سب سے زیادہ سپلائی صرف امریکہ سے ہوتی رہی ہے۔ تاہم اس کی شرط یہ ہے کہ یوکرین ان ہتھیاروں کو صرف اپنے دفاع کے لیے استعمال کرے گا یا پھر روسی فوج کے زیر قبضہ یوکرائنی علاقہ واپس لے گا۔ ایسے میں جب روس کے رہائشی علاقوں میں حملے ہوئے تو امریکہ کو کہنا پڑا کہ وہ ان حملوں کی حمایت نہیں کرتا۔ حالانکہ اب امریکہ یہ جاننے کی کوشش کر رہا ہے کہ ماسکو پر حملوں میں کون سے ہتھیار استعمال ہوئے؟
نیٹو ممالک بھی ان حملوں پر روس کے ردعمل سے گھبراہٹ کا شکار نظر آ رہے ہیں۔ اس میں اگر کوئی فائدہ ہے تو وہ صرف یوکرائن کا ہے کیونکہ روسی جوابی حملے کی کسی بھی صورت حال میں امریکہ اور نیٹو کو اس کے پیچھے کھڑا ہونا پڑے گا۔ زمینی صورتحال کو محسوس کرتے ہوئے یوکرین کے صدر زیلنسکی نے بھی رکنیت کے سوال پر نیٹو پر دباؤ بڑھا دیا ہے اور ایک طرح سے اس کی آخری تاریخ بھی طے کر دی ہے۔ اگلے ماہ لتھوانیا کے دارالحکومت ولنیئس میں نیٹو کے سالانہ سربراہی اجلاس سے پہلے زیلنسکی اس خیال پر اتفاق رائے تک پہنچنا چاہتے ہیں کہ یوکرین کے بارے میں مثبت فیصلہ سب کے لیے مثبت ہو گا۔ زیلنسکی نے یہ کہنے کی ضرورت اس لیے محسوس کی کیونکہ نیٹو میں یوکرین کی رکنیت اب ایک ایسا مسئلہ بن گیا ہے جس پر نیٹو ممالک کے درمیان جنگ چھڑ گئی ہے۔ جو ممالک یوکرین کی رکنیت کے حق میں ہیں وہ بھی اس رائے کے حامل نہیں ہیں کہ یوکرین کو مکمل رکنیت دی جائے یا نیٹو کی جانب سے سکیورٹی کی ضمانتوں کی حمایت تک محدود رکھا جائے۔ برطانیہ، پولینڈ اور بالٹک کے تینوں ممالک ایسٹونیا، لتھوانیا اور لٹویا یوکرین کے مکمل رکن بننے کے حق میں ہیں، جب کہ فرانس اور کینیڈا رکنیت کے بجائے طویل مدتی سیکیورٹی کی ضمانتوں کے حق میں ہیں۔ ساتھ ہی جرمنی پہلے ہی واضح کر چکا ہے کہ نیٹو میں جاری جنگ کے دوران نئے ارکان بنانے کی کوئی روایت نہیں ہے۔ امریکہ کی بھی ایسی ہی رائے ہے۔ امریکہ اور جرمنی کی طرح فرانس بھی اس معاملے میں کسی قسم کی جلد بازی کے حق میں نہیں ہے۔
اس سب میں کانٹے دار مسئلہ یہ ہے کہ تحمل نہ صرف یوکرین بلکہ روس کو بھی جواب دینے لگا ہے۔ اپریل کے آخری ہفتے میں روس کی سلامتی کونسل کے نائب چیئرمین دمتری میدویدیف نے جوہری کشیدگی میں اضافے اور نئی عالمی جنگ کا امکان ظاہر کیا تھا۔ تب سے تقریباً روزانہ روس کی طرف سے جنگ یا روس کے مبینہ دشمنوں کے بارے میں جارحانہ بیانات آرہے ہیں۔ ماسکو میں حکام بار بار خبردار کر رہے ہیں کہ دنیا کو دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے خطرناک دہائی کا سامنا ہے۔ پیوٹن نے خود ایک موقع پر کہا ہے کہ روس ایک تاریخی دہلیز پر کھڑا ہے جس سے آگے ایک غیر متوقع مستقبل ہے جہاں روس کو اپنے دفاع کے لیے تمام دستیاب ذرائع استعمال کرنا پڑ سکتے ہیں۔ ان بیانات کے تناظر میں پیوٹن کا امریکہ کے ساتھ جوہری معاہدے سے نکلنے اور یوکرین سے ملحقہ بیلاروس میں اسٹریٹجک جوہری ہتھیاروں کی تعیناتی کا اعلان متوقع عالمی جنگ کے تناظر میں اہم ہو جاتا ہے۔ 1990 کی دہائی کے وسط کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ روس اپنے جوہری ہتھیار ملک سے باہر کسی دوست ملک کو تعینات کر رہا ہے۔ امریکہ چونکہ کئی دہائیوں سے یورپ کے کئی مقامات پر اپنے ایٹمی ہتھیاروں کو تعینات کر رہا ہے، اس لیے اسے روس کو روکنے کا اخلاقی حق بھی نہیں ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ جنگ شروع ہوئے ڈیڑھ سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن کوئی نہیں جانتا کہ جنگ کیسے رکے گی؟ تاریخ میں کئی بار دنیا کا چودھری بننے والا امریکہ اس بار بھی بے بسی سے بھارت کی طرف دیکھ رہا ہے۔ یوکرین کے صدر زیلنسکی نے بھی جاپان میں حال ہی میں منعقدہ G-7 اجلاس میں وزیر اعظم نریندر مودی سے ذاتی طور پر ملاقات کی اور مدد کی التجا کی۔ جنگ کے آغاز سے ہی وزیر اعظم نریندر مودی مسلسل ‘یہ جنگ کا دور نہیں ہے’ اور ‘سمواد سے مدد’ کے منتر دے رہے ہیں، جس نے جنگ کی آگ کو روکنے میں بھی بہت اچھا اثر دکھایا ہے۔
ایسا بھی نہیں ہے کہ دنیا صرف روس یوکرائن کی وجہ سے سنگین کشیدگی کے دور سے گزر رہی ہے۔ جہاں امریکہ اور چین تائیوان پر آمنے سامنے ہیں وہیں شام خانہ جنگی کی آگ سے نکلنے سے قاصر ہے۔ ایران اور اسرائیل میں بھی تنازعات پھوٹ پڑنے کا خدشہ ہے اور سوڈان اور پاکستان میں اندرونی کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ یہ تشویشناک بات ہے کہ کہیں بھی کشیدگی کو روکنے کے لیے کوئی ٹھوس کوششیں نہیں کی جا رہی ہیں۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم سے پہلے بھی ایسے ہی حالات پیدا ہوئے تھے۔ دوسری جنگ عظیم میں ہیروشیما اور ناگاساکی کی ہولناکیوں کے بعد دنیا ایٹمی حملے کے برے اثرات سے بھی آشنا ہو چکی ہے۔ لیکن اس بھیانک نتائج سے کوئی سبق سیکھنے کو تیار نظر نہیں آتا۔ روس اور یوکرین میں حملوں اور جوابی حملوں کے درمیان ہر گزرتے دن کے ساتھ صورتحال مزید خراب ہوتی جا رہی ہے۔ ایسے میں روس کے رویے کو دیکھ کر ایک بار پھر پوری دنیا ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے کسی بھی امکان سے خوفزدہ نظر آتی ہے۔
-بھارت ایکسپریس