ہندوؤں پر حملہ -اتفاق یا سازش؟
Attack on Hindus – Coincidence or Conspiracy: برطانیہ کے اسکولوں کے تھنک ٹینک ہنری جیکسن سوسائٹی کی ایک رپورٹ میں ہندو مخالف نفرت کی پریشان کن تفصیلات سامنے آئی ہیں، جو یقیناً تشویشناک ہیں۔ تازہ ترین رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح برطانیہ میں ہندو طلباء کو کلاس رومز میں ڈرانے دھمکانے اور نسلی امتیاز کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان میں ہندو مخالف نعرے، ہم جماعت کا بچوں پر گائے کا گوشت پھینکنا، تلک لگانے کی دھمکیاں دینا، ہندو بچوں کو پاکی، کافر کہنا، سبزی خور اور عبادت کے طریقے کا مذاق اڑانا، ان پر اسلام قبول کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا اور بہت کچھ شامل ہے۔ چونکہ یہ انکشاف 1,000 سے زیادہ اسکولوں کے سروے اور 998 ہندو والدین کے انٹرویوز پر مبنی ہے، اس لیے ان کے عمومی ہونے کے باوجود اس کے نتائج کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ سروے میں شامل 51 فیصد والدین نے اسکولوں میں اپنے بچوں کے ساتھ مذہبی امتیاز کی شکایت کی ہے۔ یعنی سروے کیا گیا ہر دوسرا ہندو ماں باپ اور اس کا بچہ شکار ہے۔ اس سے بھی زیادہ قابل ذکر حقیقت یہ ہے کہ صرف 19 فیصد اسکول اپنے طلباء کے ساتھ اس امتیازی سلوک کی نشاندہی کرنے کے قابل ہیں۔ یعنی اگر والدین کے دعوے سچے ہیں تو اسکولوں میں بچوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے اور کوئی نظام ان کی بات سننے کے لیے کام نہیں کر رہا، ایکشن لینا تو بہت دور کی بات ہے۔ یہ ایک وجہ ہو سکتی ہے کہ پچھلے پانچ سالوں میں ایک فیصد سے بھی کم اسکولوں میں ایسے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔
یہ رپورٹ کسی علمی رائے کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ کچھ عرصے سے برطانیہ میں ہندوؤں کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت ہے اور برطانیہ میں جنونیوں کے قابو سے باہر ہونے کا ثبوت بہت خطرناک ہے۔ درحقیقت برطانیہ کے اسکولوں میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ باہر سڑکوں پر بھی ہو رہا ہے۔ ستمبر 2022 میں لیسٹر میں ہندوؤں کے خلاف تشدد کو لے کر مظاہرے بھی ہوئے۔ پاک بھارت کرکٹ میچ کے بعد مسلم کمیونٹی نے بھارت کی جیت کا جشن منانے والی ہندو برادری پر حملہ کر دیا۔ اس کے بعد ایسے واقعات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ برطانیہ بھر سے یہ جنونی لیسٹر آ ئے اور ہندوؤں کو دھمکیاں دینا اور ان کی املاک کو نقصان پہنچانا شروع کر دیا۔ مشتعل ہجوم نے مندروں پر حملہ کیا، مذہبی علامتوں کی بے حرمتی کی اور اوم، سواستیک جیسے مذہبی نشانات والے گھروں پر چن چن کر حملہ کیا گیا۔
تقریباً دو سال قبل ‘دی 1928 آرگنائزیشن’ نامی ایک تنظیم نے ‘برٹش انڈین آئیڈینٹیٹی، پولیٹیکل ریپریزنٹیشن اینڈ پالیسی ترجیحات’ کے عنوان سے ایک رپورٹ جاری کی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ 80 فیصد برطانوی ہندوستانی اپنے ہندوستانی ہونے کی وجہ سے ہندو فوبیا کا شکار ہو چکے ہیں۔ برطانیہ میں کوویڈ کی وبا کے دوران ڈیلٹا ویرینٹ کو ہندوستانی ویرینٹ تک کہا گیا تھا۔ تاہم بعد میں اس کے خلاف برطانوی پارلیمنٹ میں قرارداد لائی گئی۔ خاص بات یہ ہے کہ برطانوی وزیراعظم رشی سنک بھی بچپن میں نسلی امتیاز کا شکار ہونے کا کھلے عام اعتراف کر چکے ہیں۔
حالیہ دنوں کے ان تمام واقعات کو شامل کرتے ہوئے اب یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ کیا برطانیہ ہندوؤں کے لیے نیا بنگلہ دیش بن رہا ہے؟ ہندو مخالف فسادات، ہندو مندروں پر حملے، ہندو بچوں پر گائے کا گوشت پھینکا جانا – اس نفرت انگیز مہم کا طریقہ کار حیرت انگیز طور پر ملتا جلتا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جس طرح بنگلہ دیش میں ہندوؤں پر اسلامی بنیاد پرستوں کو پڑھنے، دیکھنے اور سننے کے لیے دباؤ ڈالا جاتا ہے، اسی طرح برطانیہ میں ہندو بچوں پر ذاکر نائیک کی ویڈیوز دیکھنے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ کیا یہ کوئی اتفاق ہے یا کوئی تجربہ نظروں سے اوجھل ہو رہا ہے کیونکہ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 2014 سے پہلے ہندوؤں کے خلاف ایسے واقعات کبھی کبھار ہوا کرتے تھے۔ سال 2014 اس تناظر میں بہت اہم ہے کیونکہ یہ ہندوستان میں اقتدار کی تبدیلی کا سال تھا۔ رپورٹ میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ 2014 میں بھارت میں مودی حکومت کے قیام کے بعد ایسے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ سیاسی اور سماجی واقعات کا ذمہ دار ہندوؤں کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ 2019 میں جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 ہٹائے جانے کے بعد ہندو مخالف واقعات میں مزید اضافہ ہوا، جس کا نتیجہ ہم نے لیسٹر میں دیکھا۔ تب سے ہندو فوبیا پھیلانے کا کام تیز ہوگیا۔ اس میں خاص طور پر بچے بنیاد پرستوں کے براہ راست نشانے پر آگئے ہیں کیونکہ ان بنیاد پرستوں کے لیے ان کی تذلیل کرکے انہیں ہراساں کرنا سب سے آسان ہے۔
صرف برطانیہ ہی نہیں دیگر کئی ممالک میں بھی ہندو نسلی امتیاز کا شکار ہو رہے ہیں۔ ان کے لباس یا مذہبی سوچ پر تبصرے کیے جا رہے ہیں اور ان پر مذہب تبدیل کرنے کا دباؤ بھی ہے۔ The Network Contagion Research Institute ایک امریکی تحقیقی ادارہ ہے۔ اس ادارے نے اس سال ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ہندوؤں پر بالخصوص امریکہ میں حملوں میں تقریباً ایک ہزار گنا اضافہ ہوا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ کا اندازہ ہے کہ یہ کسی ایک نسل یا طبقے کا کام نہیں ہے بلکہ مل کر کیا گیا نفرت انگیز جرم ہے۔ اس کے پیچھے ہندوستانی نژاد ہندوؤں کا بڑھتا ہوا نام اور کام ہے جس کی وجہ سے نفرت انگیز جرائم کرنے والوں کے لیے مواقع مسلسل محدود ہوتے جارہے ہیں۔ سلیکون ویلی سے لے کر امریکی سیاست اور دیگر شعبوں میں ہندوستانی نژاد لوگ اپنا تسلط بڑھا رہے ہیں جس کی وجہ سے مقامی نسلی گروہوں میں غصہ بڑھ گیا ہے جس کا اظہار نفرت پر مبنی جرائم کی صورت میں ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ امریکی تحقیقاتی ایجنسی ایف بی آئی نے اعتراف کیا ہے کہ ہندوستانی نژاد امریکیوں کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم میں 500 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ آسٹریلیا اور کینیڈا کا بھی یہی حال ہے۔ سال 2020 میں صرف کینیڈا میں ہندوؤں کے خلاف حملوں کے 2500 سے زیادہ کیسز رجسٹر کیے گئے، یعنی اوسطاً روزانہ تقریباً سات کیسز رپورٹ ہوئے۔ کینیڈا کے سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ پچھلے کچھ سالوں میں ان کے ملک میں ہندو مخالف بیانیے میں 72 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کی بڑی وجہ خالصتانی حامیوں کا اسلامی بنیاد پرستوں سے ہاتھ ملانا ہے۔
تاہم، وجہ کچھ بھی ہو، سناتم دھرم کے بنیادی منتر وسودھیو کٹمبکم کو نہ صرف اپنانا، بلکہ اس کو پوری دنیا میں پھیلانے والے ملک اور اس کے ہم وطنوں کے ساتھ اس طرح کا برتاؤ یقیناً حیرت کا باعث ہے۔ برطانیہ کے اسکولوں کی حقیقت نے ایک بار پھر اس مسئلے کو توجہ میں لایا ہے۔ امید کی جانی چاہئے کہ بیرون ملک آباد ہندوستانیوں کی مشکلات میں ہمیشہ ساتھی رہنے والی مودی حکومت اس چیلنج کو سنجیدگی سے لے گی اور ترجیحی بنیادوں پر مناسب حل نکالے گی۔
-بھارت ایکسپریس