ہماچل پردیش کے وزیراعلیٰ سکھوندر سنگھ سکھو۔ (فائل فوٹو)
ہماچل پردیش میں سکھویندر سنگھ سکھو کی قیادت والی کانگریس حخومت سنگین اقتصادی بحران سے جدوجہد کر رہی ہے۔ ایسی خبریں ہیں کہ اس وجہ سے بڑی تعداد میں سرکاری ملازمین اور کنٹریکٹ ملازمین کومئی مہینے کی تنخواہ کی ادائیگی میں دو ہفتے کی تاخیر ہوئی۔ اس میں ہماچل سڑک ٹرانسپورٹ کارپوریشن یعنی ایچ ٓرٹی سی کے تقریباً 11,000 ملازمین اور محکمہ جنگلات، محنت، روزگاراورجل شکتی کے 4 ہزارملازمین شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ایچ آرٹی سی کے 8 ہزار ریٹائرڈ ملازمین کو بھی مئی کے مہینے کی پنشن نہیں مل سکی ہے۔ لیکن وزیراعلیٰ سکھویندر سنگھ سکھو تنخواہ اور پنشن میں تاخیرکی بات سے صاف انکارکر رہے ہیں اوراسے ریاست کی شبیہ خراب کرنے کے لئے دہلی یعنی مرکزی حکومت کے اشارے پر چل رہی جوڑ توڑ کی مہم بتا رہے ہیں۔ حالانکہ دوسری طرف ریاست کی خستہ حال ہورہی اقتصادی صورتحال پر حکومت وہائٹ پیپر بھی لانے جا رہی ہے۔ اوور ڈرافٹ کے لئے گزشتہ حکومت کی غلط پالیسیوں پر ٹھیکرا پھوڑا جا رہا ہے۔ مارچ میں سکھو نے ریاست کی مالی صورتحال کا موازنہ سری لنکا سے کیا تھا، جس کی کئی حلقوں میں تنقید ہوئی تھی۔ ہماچل حکومت کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ حکومت کا قرض چکا رہی ہے۔ جے رام ٹھاکر حکومت عوام کے سامنے غلط اعدادوشمار پیش کرتی رہی اورریاست کا قرض بڑھتا گیا، جس کے سبب موجودہ حالات بنے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ 6 ماہ قبل اقتدارکی تبدیلی کے وقت ہماچل پردیش پر76 ہزارکروڑ روپئے سے زیادہ کا قرض تھا جوکہ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں 1,000 کروڑ روپئے سے تجاوزکرگیا ہے۔ ایسے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ہے جواس کی وجہ ان مفت اعلانات کو مانتے ہیں، جنہوں نے اقتدارمیں اقتدارمیں کانگریس کی واپسی کی راہ تو کھول دی، لیکن اس سے ریاست کی ترقی کے دروازے اب بند ہوتے جا رہے ہیں۔ کانگریس کے منشورکے مطابق، اس بار بجٹ میں 300 یونٹ مفت بجلی، 2.31 لاکھ خواتین کو1500 روپئے ماہانہ دینے اور 1.36 لاکھ سرکاری ملازمین کے لئے پرانی پنشن اسکیم کے نفاذ جیسے اہم اعلانات شامل تھیں۔ ان اعلانات کو پورا کرنے کے لئے اب حکومت 800 کروڑ کا لون لینے جا رہی ہے۔ حالانکہ یہ نظام بھی ناکافی ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ اتنا پیسہ تو اکیلے پرانی پنشن اسکیم کی بحالی میں ہی لگنے کا اندازہ ہے۔ ایک طرح سے یہ ایک طرف کنواں اور دوسری طرف کھائی والی حالت ہے۔ حکومت عوام سے کیا وعدہ اگر پورا کرتی ہے توریاست کی ترقی کا پہیہ ٹھپ ہوجائے گا اوراگر’مفت سیوا’ دینے سے منحرف ہوتی ہے توالیکشن جیت کرحکومت بنالینے کے بعد یہ وعدہ خلافی دیگرریاستوں میں کانگریس کے انتخابی امکانات کو خراب کردے گی۔ آخرکارکرناٹک میں کانگریس کی زبردست جیت میں انتخابات سے قبل دی گئی مفت کی گارنٹی کا بڑا ہاتھ رہا تھا۔ آنے والے دنوں میں راجستھان، مدھیہ پردیش اورچھتیس گڑھ میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں، جہاں کانگریس مان کر چل رہی ہے کہ مفت اعلانات کا داوں ان ریاستوں میں بھی اس کی انتخابی جیت کی بنیاد کو مضبوطی دے گا۔
مفت اعلانات کی وجہ سے ہماچل پردیش حکومت پردباؤ بڑھنے کے آثارراجستھان میں ابھی سے نظرآنے لگی ہے۔ ریاست کی 1.33 کروڑ خواتین کومفت اسمارٹ فون فراہم کرنے کے لئے گہلوت حکومت نے اس سال کے بجٹ میں 12,000 کروڑ روپئے کی تجویز پیش کی تھی۔ اسمارٹ فون کی تقسیم کے لئے رکھشا بندھن کا دن بھی طے ہوگیا ہے اوراس کے لئے ٹینڈر کا عمل بھی شروع ہو گیا ہے۔ لیکن چپ مینوفیکچرنگ میں تاخیرہونے کے سبب معاملہ شروع سے ہی خراب ہوگیا۔ ایسا کہا جانے لگا کہ اتنے کم وقت میں اتنے زیادہ موبائل فون کی تقسیم کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ یہاں بھی ادھرکنواں، ادھرکھائی والے حالات۔ انتخابی سال میں اگر وزیراعلیٰ کا اعلان پورا نہیں ہوگا تو جس مقصد سے یہ منصوبہ بنایا گیا وہ حاصل نہیں ہو پائے گا۔ حکومت اور پارٹی کا امیج خراب ہو گا، وہ الگ۔ تو آناً فاناً میں طے ہوگیا ہے کہ خواتین موبائل خود خرید لیں، موبائل کا پیسہ راست طورپران کے اکاونٹ میں پہنچ جائے گا۔ ابھی نہ موبائل کی رقم طے ہے، نہ یہ پتہ ہے کہ خواتین کے کھاتے میں کتنا پیسہ آئے گا، لیکن یہ دعویٰ ضرور ہے کہ حکومت خواتین کو راکھی گفٹ کا اپنا وعدہ ضرور پورا کرلے گی۔ حالانکہ جب اس میں 100 یونٹ مفت بجلی اور200 یونٹ تک سرچارج کی معافی، 500 روپئے میں گیس سلینڈر، خواتین کوبس کے کرایے میں رعایت، 30,000 لڑکیوں کو اسکوٹی اورتقریباً 14 لاکھ کسانوں کو 2,000 یونٹ مفت بجلی دینے کے وعدے بھی جڑیں گے، توراجستھان حکومت کا اصلی امتحان ہوگا۔ ایسا نہیں ہے کہ مفت ریوڑیاں تقسیم کرنے اور اس کے اقتصادی دباو سے صرف کانگریس یا اپوزیشن کے زیر اقتدار ریاستی حکومتیں ہی پریشانی میں ہیں۔ مدھیہ پردیش میں بھی اس سال الیکشن ہونے ہیں اور وہاں کی بی جے پی حکومت بھی ریاست کے مالی خزانے کو مدنظررکھتے ہوئے پے درپے اعلانات کررہی ہے، جنہیں قرض لئے بغیر پورا کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ حکومتوں کا قرض لینا تب تک کوئی بری بات نہیں، جب تک اس کا استعمال سڑک بنانے، ڈیم بنانے، اسکول اور کالج بنانے کے لئے کیا جا رہا ہو، لیکن یہی قرض لوگوں کو مفت کی چیزیں تقسیم کرنے کے لئے لیا گیا ہو تو یہ مستقبل کا ناسور بن سکتا ہے۔
اکثر اس مفت فارمولے کی شروعات سے عام آدمی پارٹی اور حکومت چلانے کے کیجریوال ماڈل سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ دہلی میں جیت کی ہیٹ ٹرک اورپنجاب میں بھی حکومت بنالینے کی اس کی کامیابی شاید اس کی وجہ ہو، لیکن حقیقت تویہ ہے کہ جنوبی ریاستوں میں حکومتیں عام آدمی پارٹی کے قیام سے بہت پہلے سے اس ماڈل پرسیاست کرتی رہی ہیں۔ یہ یقینی طور پرکہا جا سکتا ہے کہ اسے بنیاد بنا کرعام آدمی پارٹی نے اپنے وجود کے ایک دہائی سے بھی کم وقت میں جو توسیع حاصل کی ہے، اسے دیکھ کرکانگریس اور بی جے پی سمیت دیگرسیاسی جماعتوں کو بھی اس کا مزہ لگ گیا ہے۔ پچھلے سال اترپردیش میں خود بی جے پی نے ہی اپنے ’سنکلپ‘ میں دو کروڑ ٹیبلیٹ یا اسمارٹ فون تقسیم کرنے، کالج کی طالبات کو مفت اسکوٹی اور ہولی-دیوالی پردومفت گیس سلینڈر دینے کا وعدہ کیا تھا۔
تو سوال یہ نہیں ہے کہ کون مفت والے اعلانات کررہا ہے، کون نہیں۔ کس کا اعلان ریوڑی ہے، کس کی عوامی فلاح وبہود والی۔ دیگر ریاستی حکومتیں مسلسل قرض کے بوجھ تلے دبتی جارہی ہیں، لیکن اس کے بعد بھی وہ غیرضروری لوک لبھاونی اسکیموں میں سرمایہ کاری کررہی ہیں۔ اس میں دیکھنے والی بات یہ ہے کہ معاشرے میں کسے اس کی ضرورت ہے؟ ہمارے ملک میں اب بھی لاکھوں کروڑوں لوگوں کے پاس بنیادی سہولیات تک نہیں ہیں۔ ایسے ضرورت مندوں کے ساتھ اگرخوشحال لوگوں کو بھی مفت سہولیات ملیں گی تویقیناً معاشی حالت خراب ہوں گے ہی۔
بلاشبہ جمہوریت میں عوامی مینڈیٹ کے ذریعہ منتخب ہوئی حکومت کا یہ خصوصی اختیارہوتا ہے کہ وہ عوام کوکیا اورکیسے سہولیات دے، لیکن ماہرین معیشت اسے ملک اور ریاست کی معاشی صورتحال کے لئے سنگین تنبیہ قرار دے رہے ہیں۔ وزیراعظم نریندرمودی کی مفت ریوڑی تقسیم کرکے ووٹ اکٹھا کرنے والی بات بھی اسی تشویش سے جڑی ہوئی ہے۔ مفت کی سہولیات سے معیشت کو پہنچ رہے نقصان سے متعلق سپریم کورٹ بھی سخت تبصرہ کرچکا ہے۔
ویسے بنیادی سوال یہ ہے کہ لوگوں کو ان ’ریوڑیوں‘ کی ضرورت ہی کیوں پڑتی ہے؟ کیا اس لئے کہ ہم آج بھی ملک میں سب کو بھرپیٹ کھانا، پوری تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولیات نہیں دے پائے ہیں؟ اگرعام آدمی کو اچھی تعلیم، سستا علاج اور باقاعدہ کمائی کا نظم ہوجائے تو کوئی کسی کے سامنے ہاتھ کیوں پھیلائے گا، خود ہی راستہ بن جائے گا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ایک مثالی صورتحال کی اس تشویش پراقتدار کو برقرار رکھنے کا برتاو غالب ہے۔ خوف اس بات کا ہے کہ جوآج ہماچل پردیش میں ہورہا ہے کیا وہ محض جھانکی ہے، جس کا مستقبل میں غلط نتیجہ آنا باقی ہے۔
بھارت ایکسپریس۔