تصویروں میں پی ایم مودی کے امریکہ دورے کی جھلکیاں
Modi’s US visit, the future belongs to India: وزیر اعظم نریندر مودی کے حالیہ دورہ امریکہ کو ہندوستانی وزرائے اعظم کے کامیاب امریکی دوروں میں سرفہرست رکھا جائے گا۔ سب سے بڑھ کر، وہ اب امریکی کانگریس سے دو بار خطاب کرنے والے پہلے ہندوستانی وزیر اعظم بن گئے ہیں۔ پہلی بار یہ موقع 2016 میں آیا۔ پنڈت جواہر لعل نہرو اور اندرا گاندھی یا حتیٰ کہ منموہن سنگھ کو عالمی سیاست میں مقبولیت اور طویل عرصے تک وزیر اعظم رہنے کے باوجود یہ موقع نہیں مل سکا۔ تاہم اوباما انتظامیہ میں اس وقت کے وزیراعظم منموہن سنگھ کو ریاستی مہمان کا درجہ حاصل کرنے والے پہلے بھارتی وزیراعظم ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔ لیکن وزیر اعظم نریندر مودی اب اس نایاب فہرست میں دوسرا نام بن گیا ہے۔
ماضی کے کسی اور دور میں شاید ہی کسی اور ہندوستانی وزیر اعظم نے عالمی سیاست میں اس قدر دبدبہ اور حیثیت کے ساتھ امریکہ کا دورہ کیا ہو۔ جس طرح سے وزیر اعظم مودی کا امریکی کانگریس میں داخل ہوتے وقت تالیوں کی گرج سے استقبال کیا گیا اور امریکی قانون ساز جس طرح قطار میں کھڑے ہو کر ان سے مصافحہ کرنے کے لیے بے تاب نظر آئے، وہ ایک تصویر اس وقت دنیا میں ہندوستان کی حیثیت کو بیان کرنے کے لیے کافی ہے۔ وزیراعظم کے خطاب کے بعد بھی قطار لگی رہی – اس بار خواہش وزیراعظم سے ایک آٹو گراف اور شاید ایک سیلفی کی تھی جو ساری زندگی یاد رکھی جائے۔ اس درمیان وزیر اعظم کے خطاب میں 15بار کھڑے ہو کر تالیاں بجانا اور تقریباً 70-80 بار تالیوں کی آواز دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور امریکہ کے نیو انڈیا پر اعتماد کے اعلان سے کم نہیں ہے۔ وزیر اعظم کے اعزاز میں وائٹ ہاؤس میں عظیم الشان سرکاری ضیافت اس کی ایک مضبوط عکاسی ہے۔ جو بائیڈن نے جنوری 2021 میں عہدہ سنبھالنے کے بعد سے صرف دو سرکاری مہمانوں کے لیے ایسا ریڈ کارپٹ بچھایا ہے – ایک فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کے لیے اور دوسرا جنوبی کوریا کے صدر یون سک یوئل کے لیے۔
غور کرنے والی ایک بات اور یہ ہے کہ ماضی میں ہمارے دوسرے وزیر اعظم اور موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کے اس طرح کے دوروں نے بھی کافی دو طرفہ ضرورتوں کی عکاسی کی ہے، جس میں ہماری ضروریات واضح طور پر زیادہ تھیں۔ لیکن اس بار اس دورے پر امریکہ کی فہرست ہماری ضروریات سے زیادہ لمبی نکلی ہے۔ ایسے میں یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں ہو گا کہ یہ بھی ایک نئی شروعات ہے۔ امریکہ واضح طور پر روس یوکرین جنگ ، چین کے عروج اور گھریلو دباؤ کی تپش کو محسوس کر رہا ہے، جس سے بائیڈن انتظامیہ پر تبدیلی کی تلوار لٹک رہی ہے۔
اس لیے اس دورے کے دوران جن بہت اہم اور وسیع پیمانے پر دفاعی اور تجارتی معاہدوں پر دستخط کیے گئے ہیں ان پر مجھے کوئی حیرت نہیں ہے۔ ان میں قونصل خانوں کی تعداد میں اضافہ، گجرات میں ایک چپ اسمبل یونٹ میں 825 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری، بھارت کا معدنی سلامتی پارٹنرشپ میں شمولیت اور ناسا کے ساتھ مشترکہ مشن کے ساتھ ساتھ ہندوستانیوں کے لیے ایچ ون۔بی ویزا کی آسان تجدید جیسے معاہدے شامل ہیں۔ مسلح ایم کیو۔۹بی سی گارڈین ڈرونز اور بھارت میں لڑاکا جیٹ انجن تیار کرنے کے لیے جنرل الیکٹرک کے ساتھ تاریخی معاہدہ بھی شامل ہے۔ خاص طور پر، جنرل الیکٹرک کے ساتھ معاہدہ جدید لڑاکا جیٹ انجن ٹیکنالوجی کے لیے ہماری جستجو کو پورا کرتا ہے اور تیجس لڑاکا طیارے کی قدر میں نئی جہتوں کا اضافہ کرے گا۔ بڑی بات یہ ہے کہ امریکہ نے ابھی تک اس جیٹ انجن کی ٹیکنالوجی کو اپنےان اتحادیوں کے ساتھ بھی شیئر نہیں کیا جن کے ساتھ اس کے اہم دفاعی معاہدے ہیں۔
تجارت سمیت اقتصادی تعلقات کو مضبوط بنانے میں بھی ایسی ہی ترجیحات دیکھی گئیں ہیں۔ ہندوستان اور امریکہ کے درمیان دو طرفہ تجارت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور یہ 191 بلین ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے اور اب 2014 کے مقابلے میں دوگنی ہو گئی ہے۔ یہ اہم ہے کیونکہ ہندوستان اور امریکہ کے درمیان تجارتی اور سرمایہ کاری کی شراکت داری اب صرف دو ممالک سے کہیں زیادہ عالمی ترقی کے انجن کے طور پر کام کرتی ہے۔
دنیا کو اپنے ساتھ لے جانے اور آگے بڑھنے کا یہ احساس وال اسٹریٹ جرنل کی صحافی سبرینا کے سوال پر وزیر اعظم مودی کے جواب میں بھی نظر آتا ہے۔ مذہبی اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک اور انسانی حقوق سے متعلق اس سوال پر وزیر اعظم نے واضح کیا کہ جب ہم جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو ذات پات، نسل، مذہب کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہیں کیا جاتا۔ حکومت ہند ہمارے آباؤ اجداد کے دیئے ہوئے آئین کے مطابق کام کرتی ہے اور ہم نے بارہا ثابت کیا ہے کہ جمہوریت ہی نتائج دے سکتی ہے۔ وزیر اعظم مودی کا یہ جواب ان تمام ممالک کے لیے بھی ایک اچھی رہنمائی ہے جنہوں نے جمہوریت کو اپناتے ہوئے اپنے سماج میں ہمہ جہت ترقی کو فروغ دینے کا راستہ اختیار کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی، امریکی کانگریس میں اپنے مشہور عالمی اقتباس ‘یہ جنگ کا دور نہیں بلکہ مکالمے اور سفارت کاری کا دور ہے’ کو دہراتے ہوئے، وزیر اعظم نے روس کے ساتھ ساتھ جمہوریت کے تئیں ہندوستان کی وابستگی کے بارے میں امریکہ کی تشویش کوبھی دور کیاہے۔
تین دن کے قلیل عرصے میں بہت سارے تبدیلی کے پیغامات، اقدامات اور کامیابیوں کے ساتھ، مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک غیر معمولی کامیاب دورہ رہا ہے۔ اس دورے کی اہم خصوصیت جو میں دیکھ رہا ہوں وہ وزیر اعظم نریندر مودی اور صدر جو بائیڈن کے درمیان لیے گئے فیصلوں میں ہمت اور عزائم ہیں، جو ہمارے ترقیاتی منصوبوں اور حفاظتی تیاریوں کو مضبوط کرتے ہیں۔ اس دورے سے امریکہ نے اس خیال کو بھی تسلیم کر لیا ہے کہ بھارت اب اتحادی نہیں رہا بلکہ اس کا دوست بن گیا ہے۔ تین باتیں اس خیال کی تصدیق کرتی ہیں۔ سب سے پہلے، بائیڈن نے اپنے تین انتہائی قابل اعتماد عہدیداروں کو ہندوستان بھیجا – قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان، سکریٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن اور سیکریٹری دفاع لائیڈ آسٹن – تاکہ وزیر اعظم مودی کے دورے کی کامیابی کو یقینی بنایا جاسکے۔ اس کے بعد فوجی سازوسامان کے لیے 500 ملین ڈالر کا معاہدہ، بشمول جیٹ انجن، اہم معدنی ٹیکنالوجی ، ٹیکنالوجی کی منتقلی اور امریکی صدر کی سرکاری رہائش گاہ وائٹ ہاؤس میں ایک نجی فیملی ڈنر۔ ظاہر ہے کہ اس میں ہندوستان کو روس سے دور کرنے اور اسے چین کے خلاف ایک مضبوط پارٹنر بنانے کا انڈر کرنٹ بھی ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں ہندوستان، ایشیا میں مطابقت برقرار رکھنے اور چینی جارحیت پر قابو پانے کی امریکی کوششوں میں ایک ناگزیر قوت بن گیا ہے۔ امریکہ اکثر کھلے دل سے اعتراف کرتا ہے کہ ہندوستان اس کے لیے پہلے کبھی اتنا اہم نہیں رہا۔ ہفتے کے آغاز میں انٹونی بلنکن کے دورہ چین کے بعد امریکہ اور چین کے قریب آنے کے بارے میں دنیا میں جو بیانیہ بنایا جا رہا تھا، اب وزیر اعظم مودی کے دورہ امریکہ کے بعد پوری طرح سے الٹ گیا ہے۔ اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ امریکہ چین کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر بھارت کے ساتھ قریبی، مضبوط اور زیادہ بامعنی تعلقات کا خواہاں ہے۔
اچھے مہمان کے طور پر وزیر اعظم مودی نے مصنوعی ذہانت کی بڑھتی ہوئی طاقت کے تناظر میں اس کی مختصر شکل(شارٹ فام) اے آئی کا حوالہ دیتے ہوئے انگریزی حرف اے سے امریکہ اور آئی سے انڈیا کا ذکر کیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب سپر پاور امریکہ بھی یہ مان رہا ہے کہ مستقبل صرف ہندوستان کا ہے۔
بھارت ایکسپریس۔