Why do students come to Delhi to prepare for UPSC exam ?: سب سے مشکل مقابلہ جاتی امتحانات میں سے ایک یونین پبلک سروس کمیشن یعنی یوپی ایس سی امتحان میں کامیاب ہونے کی شرح عام طور پر 0.01 فیصدی سے 0.2 فیصدی تک ہوتی ہے۔ سال 2022 کے امتحانات کے نتائج کا اعلان 23 مئی کو کیا گیا تھا جس میں کل 11.52 لاکھ امیدواروں میں سے صرف 933 امیدوار یعنی 0.08 فیصد کامیاب ہوئے۔ کامیاب ہونے والے امیدواروں میں ٹاپ چار رینک پر لڑکیوں کا قبضہ تھا جوکہ اپنے آپ میں ایک نیا ریکارڈ ہے۔ ہر سال ، نتائج کا اعلان ہوتے ہی کامیاب امیدواروں کے جد وجہد اور سخت محنت کی کہانیاں سامنے آنے لگتی ہیں ۔ لیکن ناکام ہوئے لاکھوں امیدواروں کے جد وجہد کے بارے میں شاید ہی کوئی بات ہوتی ہے۔ دراصل اس امتحان کی تیاری کرنا اور اس عمل سے گزرنا ہمالیہ کی چوٹی پر چڑھنے سے کم مشکل نہیں ۔ یوپی ایس سی امتحان کی تیاری کرنے کیلئے ملک کے کونے کونے سے نوجوان سرکاری افسر بننے کا خواب سجائے قومی راجدھانی یعنی دہلی چلے آتے ہیں ۔ ان کی تعداد معمولی نہیں بلکہ بہت ہی زیادہ ہوتی ہے۔ اپنے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے دہلی آنے والے نوجوانوں کو بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے جو تیاری پر خرچ رقومات اور قیمتی اوقات سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔
دہلی: یوپی ایس سی کی تیاری کا سب سے بڑا مرکز
دہلی کا مکھرجی نگر، اولڈ راجندر نگر، کرول باغ اور اس کے آس پا س کا علاقہ یوپی ایس سی کوچنگ سینٹروں کا ہب ہے۔ زیادہ تر کوچنگ سینٹرز کی شاخیں، 24 گھنٹے کھلی رہتی لائبریریاں، تیاری کیلئے سازگار ماحول، یہ سب یہاں ہونے کی وجہ سے ملک بھر سے نوجوان دہلی آتے ہیں ۔ ہندوستان ٹائمس کی ایک رپورٹ کے مطابق تقریباً ایک لاکھ سے زیادہ طلباء ان علاقوں میں رہتے ہیں اور یوپی ایس سی کی تیاری کرتے ہیں ۔ یہاں سینکڑوں کی تعداد میں کوچنگ کلاسز ہیں اور اس یوپی ایس سی کوچنگ انڈسٹری کا سالانہ ٹرن اوور تین ہزار کروڑ روپئے سے زیادہ ہے۔ اپنی اپنی ریاست ، خاندان ، رہن سہن اور اپنا گھر چھوڑ کر دہلی آنے والے طالب علموں کے لئے اس شہر میں خود کو نئے سرے سے تیارکرنا آسان نہیں ہے۔ یہاں موجود سسٹم کے مطابق خود کو ڈھالنا ہوتا ہے۔ یو پی ایس سی کی تیاری کیلئے گہرے مطالعے کے علاوہ روزانہ بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
قیام وطعام
ان علاقوں میں پی جی، ہاسٹل یا روم پر دلالوں کا قبضہ ہے۔ دہلی کے ان علاقوں میں بغیر بروکر کے رہنے کیلئے جگہ تلاش کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔ یہاں رہنے کیلئے سہولیات بہت ہیں لیکن بہت مہنگی ہیں ۔ بغیر کھڑکی والے باکس جیسے کمروں کا کرایہ 7 سے 23 ہزار تک ہوسکتا ہے ۔ اس پر عجیب یہ کہ یہ کمرے اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ اس میں دوسرا کوئی آپ کے ساتھ ٹھہر نہیں سکتا ہے۔ گجرات کے کَچھ کے رہنے والے میت اہیر قریب ڈیڑھ سال سے دہلی میں رہ رہے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ میں یہاں کورونا وبا کے دوران آیا تھا۔ ان علاقوں میں بروکرس کا راج ہے۔ بروکرس کی فیس کے ساتھ میں ڈیپوزٹ اور کرایہ شامل کیا جائے تو بہت ہی مہنگا ہوجاتا ہے، جن علاقوں میں کلاسزز واقع ہیں ،وہاں مڈل کلاس کے طلبا کیلئے رہنا آسان نہیں ہے۔ گزشتہ ایک سال سے دہلی میں رہنے والے راجستھان کے جئے پور سے راہل چودھری کا کہنا ہے کہ دہلی کا کھانا اتنا اچھا نہیں ہے جتنا ہمیں دکھتا ہے۔ تیاری کرتے وقت طلبا کواپنا پیٹ بھر جائے اور دن نکل جائے ایسا کھانا ملتا ہے۔ کئی طالب علموں کو اسی وجہ سے واپس اپنے گاوں جانا پڑا ہے چونکہ وہ یہاں کے کھان پان سے بیمار ہونے لگے تھے۔
معاشی مشکلات اور سماجی دباو
یہاں آنے کیلئے طالب علموں کو معاشی طور پر کافی تیاری کرنی پڑتی ہے۔ چونکہ یہاں مین سبجیکٹ کے طور پر شمار کئے جانے والے جنرل اسٹڈیز کی دس ماہ کی کوچنگ فیس 1.20 لاکھ سے 1.80 لاکھ روپئے تک ہے۔ اس کے علاوہ زیادہ تر طالب علم آپشنل سبجیکٹ کی کوچنگ بھی کرتے ہیں ، جس کی فیس 10 ہزار سے 50 ہزار تک ہوتی ہے۔ کچھ طالب علموں کو الگ سے سول سروسز اپٹی ٹیوڈ ٹسٹ کی کوچنگ بھی لینی پڑتی ہے۔ ان تمام کو ایک ساتھ جوڑ کردیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ ایک طالب علم کا ایک سال کا خرچ قریب قریب 3 لاکھ روپئے تک پہنچ جاتا ہے۔ کئی طالب علم یہاں قرض لے کر آتے ہیں اوربہت سارے طلبا مڈل کلاس سے ہوتے ہیں جن کی معاشی حالت اتنا بوجھ نہیں اٹھا سکتی۔
صحت مند رہنے کا چیلنج
امتحان کی تیاری کرتے وقت ہر طالب علم کا ذہنی وجسمانی طور پر صحت مند رہنا ایک بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ راجندر نگر میں رہ کر تیاری کرنے والے احمد آباد کے سمیر پرجاپتی کہتے ہیں کہ شروعات میں اس چیز کی اتنی اہمیت نہیں ہوتی ۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ سماجی دباو اور پیسے کی دقتیں بڑھنے لگتی ہیں ۔ کیونکہ آپ کو کچھ ناکامیاں ملتی ہیں ۔ آپ کی عمر کے لوگوں یا دوستوں کو اچھی جگہ نوکری ملی ہوگی اور آپ ابھی تیاری کررہے ہیں جس کی وجہ سے کئی لوگ ذہنی تناو محسوس کرتے ہیں ۔ انڈین کاونسل آف میڈیکل ریسرچ یعنی آئی سی ایم آر کے ایک سروے کے مطابق پورے ملک میں 12-13 فیصد طالب علم نفسیاتی ، جذباتی اور اخلاقی طور پر مختلف مسائل سے متاثر ہیں ۔ یوپی کے مظفرنگر کے رہنے والے تشار کے مطابق تیاری کیلئے مستقل مزاجی اور صحت بہت ہی ضروری ہے۔ کافی وقت تک خاندان سے دور رہنا پڑتا ہے ۔ اس صورتحال میں کئی لوگ تنہائی محسوس کرتے ہیں ۔ یہ ذہنی دباو اکثر طالب علموں کو غلط قدم اٹھانے پر مجبور کرتا ہے۔ این سی آر بی ڈیٹا 2020 کے مطابق بھارت میں ہر سال 2500 طالب علم امتحانات کو لیکر اس قدر تناو کے شکار ہوتے ہیں کہ وہ خودکشی کرلیتے ہیں۔
زبان اور دیگر مسائل
تمل ناڈو کے تھینی ضلع کے ایک چھوٹےسے قصبہ کمبم سے دہلی آئے عاشق رحمن کی کہانی تھوڑی مختلف ہے۔ گریجویشن کے بعد وہ ملک کی ایک ٹاپ آئی ٹی کمپنی میں کام کررہے تھے ۔ وہ بتاتے ہیں کہ لاک ڈاون کے دوران میں نے یوپی ایس سی کی تیاری کرنے کا فیصلہ کیا۔ آن لائن کلاس کئے، گھر سے تیاری کرکے دوبار امتحان دیا لیکن کامیاب نہیں ہوپایا اس لئے میں دہلی آگیا ۔ وہ کہتے ہیں کہ میرے جیسے جنوبی ہند کے طالب علموں کیلئے یہاں زبان ایک بڑا مسئلہ بنتی ہے۔ میری ہندی اچھی نہیں ہے ، اس لئے زیادہ تر چیزوں کو سمجھنے میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حیدرآباد سے آئے ملک ارجن کہتے ہیں کہ کلاسز سے لیکر دہلی میں کئی مقامات پر زبان کے مسئلے سے جوجھنا پڑتا ہے ، لیکن لمبا راستہ طے کرنے کیلئے کئی سمجھوتے کرنے ہوں گے۔ اس امتحان میں کچھ بھی یقینی نہیں ہے ، کوئی گارنٹی نہیں ہے۔ زیادہ تر امیدواروں کو دماغ میں ایک بیک اپ پلان رکھ کرچلنا ہوتا ہے۔ عام طور پر طالب علموں کا پہلا سال کوچنگ کرنے میں گزرتا ہے ۔ پھر وہ پریلیم دیتے ہیں ،اگر کامیاب ہوتے ہیں تو فائنل ریزلٹ آنے میں ایک سال گزر جاتا ہے۔
طالبات کیلئے مشکلات زیادہ ہیں
یوپی ایس سی مرد وخواتین دونوں امیداروں کو یکساں مواقع فراہم کرتی ہے۔ لیکن طالبات کو کچھ الگ قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کئی بار انہیں گھر سے دور جاکر دوسرے شہروں میں تیاری کرنے کا موقع نہیں مل پاتا ہے۔ اترپردیش کے کانپور میں رہنے والی ایکتا پانڈے کہتی ہے کہ تیاری کے علاوہ میں کہوں گی کہ آلودگی، زیادہ کرایہ اور خوراک اہم مسئلے ہیں ، میں اسے پوری طرح سے ہینڈل نہیں کرسکی ،اس لئے مجھے بہت مشکل وقت سے گزرنا پڑا ہے۔ ہریانہ کے بہادرگڑھ کی رہنے والی شیوم ڈباس کہتی ہیں کہ میرا تجربہ ہے کہ لڑکے ہم سے زیادہ سماجی دباو محسوس کرتے ہیں۔ شہروں میں لڑکیوں کا اپنے گھروالوں سے دور رہ کرنا تیاری کرنا کافی مشکل امر ہوتا ہے۔
دہلی آنے کی بنیادی وجہ
یوپی ایس سی کی تیاری کیلئے دہلی کا انتخاب الگ الگ امیدواروں کیلئے الگ الگ وجوہات کی بنا پر ہوتا ہے۔ سمیر کہتے ہیں کہ میں ایک ٹیکنالوجی بیک گراونڈ سے آتا ہوں اور دسویں جماعت کے بعد ہیومنٹیز کے سبجیکٹ کی اسٹڈی نہیں کی ہے، اس لئے میں نے دہلی آنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تشار کا کہنا ہے کہ میں نے کمسٹری کو آپشنل سبجیکٹ کے طور پر رکھا ہے ، صرف اسی کی کلاسز کیلئے دہلی آیا ہوں۔ چونکہ اس کی بہترین تیاری دہلی میں کرائی جاتی ہے۔ حالانکہ ایکتا پانڈے کا کہنا ہے کہ شروعات میں میں نے گھر سے تیاری کرنے کا فیصلہ کیا لیکن اتنا لمبا نصاب دیکھ کر مجھے لگا کی مجھے دہلی جاناچاہیے تبھی میں دہلی میں رہ کر تیاری کرنے والوں سے مقابلہ کرپاوں گی۔ ملک ارجن کہتے ہیں کہ حیدرآباد میں کئی کلاسز ہوتی ہیں لیکن خاندان اور دوستوں سے دور رہنا چاہتا تھا۔ مجھے لگا کہ اس سے اچھا ماحول ملے گا اور تیاری میں خلل نہیں پڑے گا۔ راہل کہتے ہیں کہ یوپی ایس سی کی تیاری کرنے والوں کے لئے دہلی مکہ بن گئی ہے۔ بہترین کوچنگ سینٹر بھی دہلی میں ہے۔ یہاں ضروری چیزیں بہت آسانی سے مل جاتی ہیں اس لئے میں دہلی آیا ہوں۔
کیا گھر پر ہوسکتی ہے تیاری؟
سال 2022 میں یوپی ایس سی میں ملک بھر میں دوسرا رینک حاصل کرنے والی گریما لوہیا کہتی ہیں کہ میں نے گھر پر رہ کر پڑھائی شروع کی ۔ میں رات کو 9 بجے سے لیکر صبح 9 بجے تک پڑھائی کرتی تھی ۔ کیوں کہ اس وقت کوئی روکاوٹ نہیں ہوتی تھی۔ رواں سال میں 865ویں رینک حاصل کرنے والے آدتیہ امرانی نے کہا ہے کہ آپ کہاں سے تیاری کرتے ہیں وہ آپ پر منحصر ہے ۔ میں نے صرف گھر پر رہ کر ہی تیاری کی ہے۔ صرف آپشنل سبجیکٹ کیلئے تھوڑی بہت آن لائن گائیڈینس لی تھی۔ ہاں ایسا ضرور ہوتا ہے کہ گھر پر رہتے ہوئے بہت سی چیزوں کو قربان کرنا پڑتا ہے ۔جیسے تہوار،خاندانی تقریبات وغیرہ۔
بھارت ایکسپریس۔