Bharat Express

Jammu and Kashmir Hijab Row: کیا حجاب پہننے والی لڑکیوں کو نہیں ہے تعلیم کا حق؟ اسکول کے فیصلے پر طالبات کا سوال

اسکول کے پرنسپل میم روز شفیع نے اس معاملے پر وضاحت دیتے ہوئے بتایا کہ کسی کو بھی حجاب پہننے سے نہیں روکا گیا ہے، اس معاملے میں کچھ غلط فہمی ہوئی ہے۔

علامتی تصویر۔

Jammu and Kashmir Hijab Row: کیرلا کے بعد اب جموں وکشمیرمیں حجاب تنازعہ مسلم اکثریتی خطہ کشمیرتک پہنچ گیا ہے، جہاں پرایک اسکول میں حجاب پہننے سے متعلق اسکول نے مبینہ طورپرگائڈ لائن جاری کی ہے۔ اس گائڈ لائن کے خلاف کئی طالبات نے حجاب پہن کرانتظامیہ کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔ سری نگرکے رینا واڑی علاقے میں وشو بھارتی مہیلا کالج کے کیمپس میں داخل ہونے سے روکی گئی کئی طالبات نے اس انتظامیہ کے اس فیصلے پرناراضگی کا اظہارکیا۔

طالبات کا حجاب ہٹانے سے انکار

طالبات نے اسکول انتظامیہ کے ذریعہ حجاب پر پابندی سے متعلق احکامات کو مسترد کرتے ہوئے احتجاج کیا اور مذہبی وجوہات کا حوالہ دیتے ہوئے اسے ہٹانے سے انکار کردیا۔ طالبات نے کالج انتظامیہ پر اس موضوع پر مذہبی اور فرقہ وارانہ بیان دینے کا الزام لگایا۔ مظاہرین طالبات میں سے ایک نے ایک ٹی وی چینل کو دیئے بیان میں کہا، ’’حجاب میرے مذہب کا حصہ ہے اور وہ مجھ کو اسے ہٹانے کے لئے کہہ رہے ہیں۔ جب باقی کے اسکولوں میں اس کی اجازت ہے تو میں اپنا کور نہیں ہٹاؤں گی۔“

حجاب پابندی پرطالبات 

کالج احاطے میں داخل ہونے سے پہلے حجاب ہٹانے کے لئے کہنے پر طالبات اور کالج انتظامیہ کے درمیان تلخ بحث ہوئی۔ داخلے پر غیرقانونی پابندی کی مخالفت کر رہی ایک دیگر لڑکی نے کہا ’’وہ ہمیں حجاب ہٹانے یا کسی درسگاہ (مذہبی اسکول) میں جانے کے لئے کہہ رہے ہیں۔ لڑکیوں کا سوال تھا کہ کیا حجاب پہننے والی لڑکیوں کو تعلیم کا اختیار نہیں ہے؟“

لڑکیوں کی حمایت میں آئی نیشنل کانفرنس؟

اسکول کے اس فیصلے پر صوبے کی سیاسی پارٹی نے بھی ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ نیشنل کانفرنس کے چیف ترجمان تنویر صادق نے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا ہے ’’حجاب پہننا ایک ذاتی پسند ہونی چاہئے اورمذہبی لباس کے معاملوں میں کوئی مداخلت نہیں ہونی چاہئے۔ مسلم اکثریتی جموں وکشمیرمیں ایسے حادثات کو دیکھنا بدقسمتی ہے۔ ہم اس کی سخت مخالفت کرتے ہیں اور فوری کارروائی کی اپیل کرتے ہیں۔

فرمان جاری کرنے والی اسکول انتظامیہ نے کیا کہا؟

اسکول کے پرنسپل میم روز شفیع نے اس معاملے پراپنی وضاحت دی ہے۔ انہوں نے کہا، اس موضوع پر کچھ غلط فہمی ہوئی ہے کیونکہ طالبات کو اسکول کے اندرچہرہ کھلا رکھنے کے لئے کہا گیا تھا۔ یہ بچوں کے والدین کی ان شکایتوں کے بعد کیا گیا تھا، جس میں بچے اسکول نہیں آرہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اگرطلبا کا چہرہ پوری طرح سے پردے میں ہے توایک ٹیچرکے لئے طالب علم کی شناخت کرنا مشکل ہوتا ہے اورکچھ معاملوں میں کئی بچے اپنی پراکسی  حاضری بھی لگوا دیتے ہیں۔ اس وجہ سے ہمیں یہ گائڈ لائن جاری کرنے کے لئے مجبور ہونا پڑا۔ حالانکہ اس کا کوئی اینگل نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں:  دہلی یونیورسٹی میں ’علامہ اقبال‘ کی جگہ ’ویرساورکر‘ کو پڑھانے کی حمایت میں آئے 123 ریٹائرڈ افسران، علامہ اقبال کو نصاب سے ہٹانے کو درست ٹھہرایا

انتظامیہ نے طالبات سے کیا یہ وعدہ

تنازعہ بڑھنے کے بعد اسکول انتظامیہ نے طالبات سے وعدہ کیا ہے کہ وہ اس معاملے میں ایک نیا ڈریس کوڈ جاری کریں گے اور اس میں ان کو ایک ہی رنگ کا حجاب پہننے کی اجازت دے دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے بھی اسکول میں لڑکیاں حجاب پہن کر آرہی تھیں اوران کو اس کے لئے کبھی نہیں روکا گیا۔ پرنسپل نے یہ بھی وضاحت کی ہے کہ اس گائڈ لائن کے پیچھے کوئی پہلو نہیں ہے۔

  -بھارت ایکسپریس