تحریر : جی کشن ریڈی (مرکزی وزیر برائے شمال مشرقی خطے کی ترقی)
تاریخی ناری شکتی وندن ادھینیم کو پارلیمنٹ میں پیش کئے جانے پر، محترم وزیراعظم جناب نریندرمودی نے، اس کی منظوری کو درست طورپراراکانِ پارلیمنٹ کے لیے ایک اَگنی پریکشا قرار دیا۔ یہ حقیقت میں ایک اگنی پریکشا ہی ہے: بھارت کی روایتی عظمت کو بحال کرنے کی اگنی پریکشا، جومساوات اورتوازن کے لیے جانی جاتی تھی؛ خواتین کے لیے اعلیٰ ترین احترام کے حصول کے لیے اگنی پریکشا، جوانہیں زمانۂ قدیم سے حاصل تھا؛ اورایک اگنی پریکشا، جوسیاسی بدگمانیوں سے بالا ترہوکرناری شکتی کے لیے متحد ہو۔ جدید جمہوری بھارت کے مندر، پارلیمنٹ کو اردھ ناریشورکے جذبے کی علامت ہونا چاہیئے ، جو شریک – یکساں خاتون کے ذریعے لائی گئی برابری اورمکمل توازن کی علامت ہے۔
صنفی عدم مساوات اور ناانصافی سے دوچار دنیا میں، بھارت خواتین کے لئے تاریخی احترام کی روشن مینار کے طور پر ایستادہ ہے۔ صدیوں سے، بھارتی ثقافت نے خواتین کو مجسم شکتی کے طورپرسمجھا ہے، اُن کی دانشور، جنگجو، ملکہ اورلیڈرکے طور پر، ان کی بے پناہ صلاحیتوں کا اعتراف کیا ہے۔ یہچاہے روحانی دائرہ ہو، جہاں خواتین کو تری دیوی کے طور پر سمجھا جاتا ہے، جو قوت، عقل اور خوشحالی فراہم کرتی ہے، قدیم کتابیں جیسے وید اوراپنشد میں خواتین دانشوروں کے دوہے تصنیف کئے گئے ہیں ؛یا ابتدائی تہذیب ہو ، جہاں جنگجو رانیوں نے فتح اور خوشحالی کے لیے اپنی سلطنت کی قیادت کی ۔ قدیمبھارت میں ، خواتین نہ صرف تعلیمیافتہ ہوتی تھیں بلکہ ہ فلسفے کے مباحثوں اور مذہبی تقریبات میں سرگرمی سے حصہ لیتی تھیں۔ بھارت میں گارگی، لوپامدرا اورمیتری جیسی عظیم فلسفیوں اوردانشوروں، رانی پدمنی، رانی درگاوتی، رانی رودرماّ دیوی، رانی اہلیہ بائی ہولکراور ایسی بہت سی خواتیننے صدیوں پہلے اپنی قوت کا لوہا منوایا تھا اورانہوں نے یہ کام جدید دنیا کے ذریعے خواتین کو ووٹنگ کا حق دیئے جانے سے صدیوں سے پہلے دیئے تھے ۔
رامائن اور مہابھارت میں سیتا ماتا، دروپدی اورکنتی جیسی مضبوط اور بااثر خواتین کی عکاسی کی گئی ہے، جنہوں نے ان مہاکاوی کہانیوں کی داستانوں اور واقعات کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ خاندان کی ترتیب میں بھی خواتین کا رول بہت اہم رہا ہے۔ وہ ’’سہہ دھرم چارینی‘‘ ہے، جس کا مطلب ہے کہ وہ گرہستھ دھرم میں برابرکی شریک ہیں، جہاں وہ اپنے شوہرکے ساتھ مل کرگھرکی قیادت کرتی ہے اور توسیع کے ذریعے، تہذیب کو راست بازی اور دھرم کی راہ پر گامزن کرتی ہے۔ منفرد طور پر، سناتن دھرم کے اندر، شکتی روایت نسائی الوہیت کے لیے اپنی خصوصی عقیدت میں مخصوص ہے، جس کی نمائندگی شکتییا ماں کے طور پر کی جاتی ہے۔
ان ثقافتی اقدار کو سنسکرت کا ایک اقتباس معاشرے کے معمار کے طور پر خواتین کے کردار کو خوبصورتی سے بیان کرتا ہے:
’ ناری سماجسیہ کسالا واستو کارا ‘
‘Nārī Samājasya Kuśalavāstukārā’
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ بھارتی ناری ہمیشہ سے عزت و احترام کی حقداررہی ہے اوریہ روایت بے شمارنسلوں سے جاری ہے۔ البتہ، برسوں کے دوران، باربارہونے والے حملوں نے ہماری ثقافتی اقداراورروایات میں جڑی اس نسائی اہمیت کو مندمل کردیا ہے۔ اس کے نتیجے میں، جدید دورکے بھارت میں، سیاسی وابستگی اورپہل کی کمی کی وجہ سے قانون سازاداروں (یونین اورریاست دونوں) میں خواتین کی نمائندگی واضح طورپرپیچھے رہ گئی۔
سال 2014 ء کے بعد سے، مودی جی نے پورے بھارت میں صنفی مساوات کے دوبارہ مرتب کرنے کا کام اپنے اوپرلے لیا ہے۔ اس کا آغازخواتین کی ترقی سے خواتین کی زیرقیادت ترقی کے مشن تک بیانیے کو تبدیل کرنے کے ساتھ ہوا۔ ’’ناری شکتی‘‘ کو بھارت کے ترقی کے سفرمیں بنیادی جگہ دی گئی ہے۔ خواہ وہ خواتین کو بااختیار بنانے میں سماجی واقتصادی رکاوٹوں کو دور کرنے میں مدد فراہم کرنا ہویا اس بات کو یقینی بنانا ہوکہ وہ مضبوطی سے اورزیادہ مضبوطی کی طرف بڑھیں، ایک ایسا ماحولیاتی نظام تیارکیا جا رہا ہے، جہاں خواتین کو، جو کہ بھارت کی آبادی کا 50 فیصد ہیں، اپنی صلاحیتوں کا بھرپورادراک کرنے کے مساوی مواقع حاصل ہوں۔
چھوٹے چھوٹے فلاحی اقدامات کو اپنانے کے ماضی کے طریقوں سے الگ ہٹتے ہوئے، حکومت نے، 2014 کے بعد، ایک عورت کی زندگی اورضروریات کے کئی مراحل پر پالیسی اقدامات مرتب کرکے، ایک اسٹریٹجک لائف سائیکل اپروچ کو اپنایا ہے۔ ان میں سب سے بنیادی چیز، اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ خواتین عزت اور حفاظت کی زندگی گزاریں۔ اُجولا یوجنا کے تحت 9.6 کروڑ دھوئیں سے پاک باورچی خانے، جس کی وجہ سے نہ صرف لاکھوں خواتین کو رہن سہن میں آسانی میسرآئی ہے بلکہ انہیں سانس کی دائمی بیماریوں سے بھی محفوظ کیا ہے۔ سووچھ بھارت یوجنا کے تحت 12 کروڑ بیت الخلاء کی وجہ سے خواتین کو اپنے گھروں میں بیت الخلاء تک محفوظ اورباوقاررسائی حاصل ہوئی ہے، تحفظ سے متعلق خدشات کو ختم کیا ہے اوران کے وقارکو محفوظ رکھا ہے۔ یہاں تک کہ جل جیون مشن کے تحت نل کے پانی کے 12 کروڑکنکشن- ان تمام اقدامات نے خواتین کو تنگدستی اورنا امیدی کی زندگی سے باہرنکالا ہے۔
دوسری جانب، یکسرسماجی تبدیلی لانے کے لیے پرانی سماجی بیڑیوں کو توڑا گیا ہے۔ چاہے یہ خواتین کی شادی کی عمر کو 18 سال سے بڑھا کر 21 سال کرنا ہو، زچگی کی مدت کے دوران تنخواہ کی مدت کو 12 ہفتوں سے بڑھا کر 26 ہفتے کرنا ہو، یا تین طلاق کےغیرمنصفانہ عمل پر پابندی لگانا ہو، اسی طرح بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ مشن نے لڑکیوں کے خلاف گھناؤنے سماجیطور طریقوں کے خلاف ایک مکمل تبدیلی کا عمل شروع کیا ہے اوراس کے نتیجے میں، این ایف ایچ ایس – 5 نے 1020 خواتین (فی 1000 مردوں) کی مثبت صنفی شرح پیش کی ہے ۔ درحقیقت،جب وہ شکتی کے مجسم ہونے کے طور پر اپنی عظمت کا دعویٰ کرنے کے لیے اٹھی ہیں ، تو مودی جی ناری شکتی کے ساتھ کھڑے ہیں ۔
جیسا کہ واضح ہے، مودی جی کے خواتین کو بااختیار بنانے کے ویژن کو پیدائش سے ہی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ایک کثیر الجہتی نقطہ نظر کے طور پر اپنایا گیا ہے ، جس میں تغذیہ ، صحت، اسکولنگ، کیریئراورروزگار، خاندان اورزچگی کے دوران رہن سہن ، قوم کی خدمت اورقائدانہ کردارسنبھالنا شامل ہے ۔ خواتین ریزرویشن بل ان ارادوں کو دی گئیقوت کی مہر ہے، ایک شَنکھ ناد ، جس سے شکتی اٹھی ہے اورہماری عظیم قوم کی باگ ڈور سنبھالنے کے لیے تیار ہے۔
خواتین کا ریزرویشن بل جدید دور کے ایک طلسم کے طور پرسامنے آیا ہے، جو اس تہذیب میں خواتین کو عہد قدیم سے دیئے جانے والے احترام اورمساوات کا اعادہ کرتا ہے۔ جناب نریندر مودی جی کی قیادت میں، اس ترمیمی بل اورکئی دیگر اقدامات کے ساتھ، ہم ایک تاریخی نصاب کی اصلاح کر رہے ہیں، ایک ایسا سفر، جو ہمارے قدموں کو بھارت کی اصل شان تک پہنچاتا ہے — ایک ایسی سرزمین، جہاں خواتین کی آوازسنی جاتی ہے، ان کے کردارتسلیم کیا جاتا ہے اوران کے تعاون کو قدرکی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
گنیش چترتھی کے موقع پر22 سال سے بل کو درپیش رکاوٹوں کو دور کرتے ہوئے ، مودی جی کے ذریعہ متعارف کرائے گئے خواتین کے ریزرویشن بل نے تقریباً متفقہ ووٹ حاصل کئے ، جو خود وِگھنہرتا کی طرف سے ایک نعمت ہے، جس نے اسے پیدا کرنے، اس کی پرورش کرنے اوراس کی حفاظت کرنے کے لیے ماتا پاروتی کو نمن کیا۔ اس کے ساتھ، عزت مآب وزیر اعظم جناب نریندرمودی جی نے صنفی مساوات اور ماں بھارتی کو بااختیار بنانے کی طرف ایک اور بڑا قدم اٹھایا ہے ۔ اوراس کی وجہ سے میرے ذہن میں 150 کروڑ بھارتیوں کا عوامی جذبہ ’مودی ہے تو ممکن ہے‘، پھرسے گونجتا ہے !
بھارت ایکسپریس۔