Bharat Express

BJP on AIMPLB: آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے خلاف بی جے پی کا بڑا مطالبہ، کہا- مسلمانوں کو خوفزدہ نہ کریں

بی جے پی اقلیتی مورچہ نے کہا کہ آپ ہندوستان کے مسلمانوں کا نمائندہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے۔ پسماندہ سماج کو آپ نے نہ کے برابر حصہ داری دی ہے اور نہ ہی اس کے لئے آپ نے کبھی آواز اٹھائی جبکہ ملک میں 80 فیصد مسلمان پسماندہ طبقے سے آتے ہیں۔ یہ ایک غیر ضروری تنظیم ہے، لہٰذا اس کے نام سے’بورڈ‘ لفظ ہٹایا جائے۔

نئی دہلی: بی جے پی اقلیتی مورچہ نے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ سے’بورڈ‘ لفظ کوہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس کے لئے اس نے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدرخالد سیف اللہ رحمانی کو ایک خط لکھا ہے۔ بی جے پی اقلیتی مورچہ کے صدر جمال صدیقی نے خالد سیف اللہ رحمانی کولکھے گئے خط میں کہا ہے کہ آپ کی پارٹی کا نام دیکھ کرلگتا ہے کہ وہ پورے ہندوستان کے مسلمانوں کی نمائندہ پارٹی ہے جبکہ آپ کی پارٹی میں پسماندہ سماج کی نمائندہ نہ کے برابر ہے۔

بی جے پی لیڈرجمال صدیقی نے یہ بھی کہا ہے کہ ’بورڈ‘ لفظ سے ایسا لگتا ہے کہ یہ کوئی سرکاری تنظیم ہے جبکہ یہ ایک غیرسرکاری تنظیم ہے۔ لہٰذا اس کے نام سے ’بورڈ‘ لفظ ہٹایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اقتصادی لین دین اورچندہ لینے کو عوامی نہیں کرنے پربھی سوال کھڑا کیا اورمطالبہ کیا کہ اس تنظیم سے’بورڈ‘ لفظ ہٹایا جائے، جس سے ملک کے مسلمان خوفزدہ نہ ہوں۔

بی جے پی اقلیتی مورچہ نے اٹھایا سوال

بی جے پی اقلیتی مورچہ نے خط میں مزید لکھا کہ آپ پورے ہندوستان کے مسلمانوں کا نمائندہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے۔ پسماندہ سماج کوآپ نے نہ کے برابرحصہ داری دی ہے اورنہ ہی اس کے لئے آپ نے کبھی آوازاٹھائی جبکہ ملک میں 80 فیصد مسلمان پسماندہ سماج سے آتے ہیں یہ ایک غیرسرکاری تنظیم ہے، لہٰذا اس کے نام سے ’بورڈ‘ لفظ ہٹایا جائے۔

کیا ہے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ؟

آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا قیام 7 اپریل 1972 کو عمل میں آیا تھا۔ یہ ایک غیرسیاسی تنظیم ہے۔ ہندوستان میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کی درخواست کا تحفظ کرنا اور اسے فروغ دینا ہے۔ یہ تنظیم مسلم قوانین کا تحفظ کرنے، ہندوستانی حکومت کے ساتھ رابطہ کرنے اوراہم موضوعات پرعام عوام کی رہنمائی کرنے کے لئے کام کرتا ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ میں مسلمانوں کے تمام فرقوں کی نمائندگی ہے۔ بورڈ کے پاس 51 علماء کی ایک ورکنگ کمیٹی ہے، جومختلف مسائل پرحکومت کواپنی رائے پیش کرتی ہے۔ اس میں 201 علمائے کرام شامل ہیں، جن میں تقریباً 25 خواتین کے ساتھ ساتھ عام آدمی بھی شامل ہیں۔

بھارت ایکسپریس-