سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے پی ٹی آئی کو دیئے ایک انٹرویو میں سال 2023 کی حصولیابیوں اور بڑے فیصلوں کا ذکر کیا ہے۔ انہوں نے ان فیصلے پر اپنی رائے بھی پیش کی ہے اور ایودھیا بابری مسجد مقدمہ سے لیکر 370 کا معاملہ ہو یا پھر ہم جنس پرستی کا معاملہ ۔ ان تمام مقدمات پر انہوں نے اپنی بے باک رائے رکھی ہے۔سی جے آئی ڈی وائی چندر چوڑ نے پیر (1 جنوری) کو رام مندر کیس میں فیصلوں پر اہم تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایودھیا کیس میں ججوں نے متفقہ طور پر فیصلہ دیا تھا کہ فیصلہ کس نے لکھا ہے اس کا کوئی ذکر نہیں ہوگا۔یعنی پانچ رکنی بنچ نے ایک ساتھ یہ طے کیا تھا کہ فیصلہ جو لکھا جارہا ہے ،کون لکھے گا اس کا ذکر نہیں کیا جائے گا۔سی جے آئی نے کہا کہ تنازعہ کی طویل تاریخ اور متنوع نقطہ نظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے، سپریم کورٹ نے ایودھیا کیس میں متفقہ فیصلہ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔
چیف جسٹس نے جموں کشمیر سے آرٹیکل 370 کی منسوخی کو چیلنج کرنے والی مقدمے کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ جموں و کشمیر سے آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے پر سپریم کورٹ کے متفقہ فیصلے پر تنازعہ کو مزید ہوا نہیں دینے چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ججز کسی بھی کیس کا فیصلہ آئین اور قانون کے مطابق کرتے ہیں۔ان کی ذاتی رائے یا عوامی رائے کا کوئی دخل نہیں ہوتا،بلکہ جو کچھ آئین میں ہے اور جو کچھ قانون میں ہے اسی کے مطابق فیصلے لئے جاتے ہیں ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے پچھلے سال میں کچھ بہت ہی منفرد اقدامات کیے ہیں۔ ،جو کہ ہندوستانی عدلیہ میں بہتر رسائی اور شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ ہم نے آئینی بنچوں سے نکلنے والے اہم مقدمات کی لائیو سٹریمنگ شروع کر دی ہے۔بنچ کی تقسیم پر اٹھنے والے الزامات پر سی جے آئی ڈی وائی چندرچوڑ کا کہنا ہے کہ ججوں کو مقدمات کی تقسیم وکیل کے کہنے سے نہیں ہو سکتی۔میں اپنے ذہن میں بالکل واضح ہوں کہ سپریم کورٹ کے ادارے کی ساکھ کو برقرار رکھا گیا ہے۔چیف جسٹس نے ہم جنس شادی کے فیصلہ پر سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ فیصلہ کرنے کے لیے نتیجہ کبھی ذاتی نہیں ہوتا، مجھے اس فیصلے پر کوئی افسوس نہیں ہے۔
بھارت ایکسپریس۔