Bharat Express

Asaduddin Owaisi on RSS: آرایس ایس پر اسدالدین اویسی کا بڑا حملہ، کہا- ’تو محب وطن نہیں ہوسکتا سرکاری ملازم‘

سال 1966 میں اس وقت کی کانگریس حکومت نے آرایس ایس کے پروگراموں میں سرکاری ملازمین کے شامل ہونے پرپابندی لگائی تھی۔ اب حکومت نے اس پابندی کوہٹا دیا ہے۔ حکومت کے فیصلے پرمجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسدالدین اویسی نے حملہ کیا ہے۔

آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسدالدین اویسی۔ (فائل فوٹو)

راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ (آرایس ایس) کے پروگراموں میں اب سرکاری ملازم بلاکسی روک ٹوک کے شامل ہو سکیں گے۔ مرکزی حکومت نے ایک حکم کے ذریعہ آرایس ایس سے متعلق 58 سال پرانی پابندی کوہٹا دیا۔ اس فیصلے کے خلاف سوال کھڑے کئے جانے لگے ہیں۔ حکم جاری ہوتے ہی کانگریس نے حکومت پرتنقید کی۔ اس کے بعد آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے سربراہ اورحیدرآباد کے رکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی نے برہمی کا اظہارکیا ہے۔ انہوں نے اس فیصلے کو ہندوستان کی سالمیت اوراتحاد کے خلاف بتایا ہے۔ ساتھ ہی آرایس ایس پرتنقید کی ہے۔

حیدرآباد کے رکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی نے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا، ’’یہ دفتری میمورنڈم مبینہ طورپرظاہرکرتا ہے کہ حکومت نے آرایس ایس کی سرگرمیوں میں حصہ لینے والے سرکاری ملازمین پرسے پابندی ہٹا دی ہے۔ اگریہ سچ ہے تویہ ہندوستان کی سالمیت اوراتحاد کے خلاف ہے۔ آرایس ایس پرپابندی ہے کیونکہ اس نے آئین، قومی پرچم اورقومی ترانے کوماننے سے انکارکردیا تھا۔ آرایس ایس کا ہررکن یہ حلف لیتا ہے کہ ہندوتوا کوملک سے بالاتر رکھا جائے گا۔ اگرکوئی سرکاری ملازم آرایس ایس کا رکن ہے تووہ قوم کا وفادارنہیں ہوسکتا۔‘‘

کانگریس نے اس فیصلے پر کیا کہا؟

دراصل، 1966 میں اس وقت کی کانگریس حکومت نے آرایس ایس کے پروگراموں میں سرکاری ملازمین کے شامل ہونے پر پابندی لگائی تھی۔ اب ڈپارٹمنٹ آف پرسنل اور ٹریننگ نے ایک حکم جاری کرتے ہوئے اسے منسوخ کردیا۔ پہلے کے حکم میں سرکاری ملازمین کے آرایس ایس کے پروگراموں میں شامل ہونے پر سزا کا التزام تھا۔ سرکاری ملازمین ریٹائرمنٹ کے بعد بھی پنشن وغیرہ کے فائدہ کو دھیان میں رکھتے ہوئے بھی آرایس ایس کے پروگراموں میں شامل ہونے سے بچتے رہے تھے۔ اب نئے حکم سے سرکاری ملازمین کو بڑی راحت ملی ہے۔

جے رام رمیش نے اٹھایا بڑا سوال

اس قانون کے منسوخ ہونے کے بعد کانگریس لیڈر جے رام رمیش نے سوشل میڈیا پرلکھا، ’’فروری 1948 میں گاندھی جی کے قتل کے بعد سردارپٹیل نے آرایس ایس پرپابندی لگا دی تھی۔ اس کے بعد اچھے اخلاق وکردار کی یقین دہانی پرپابندی کوہٹایا گیا۔ اس کے بعد بھی آرایس ایس نے ناگپورمیں کبھی ترنگا نہیں لہرایا۔ 1966 میں آرایس ایس کے پروگراموں میں حصہ لینے والے سرکاری ملازمین پر پابندی لگا دی گئی اور یہ صحیح فیصلہ بھی تھا۔ یہ پابندی اٹل بہار واجپئی کے وزیراعظم رہتے ہوئے بھی نافذ تھی۔ میرا ماننا ہے کہ نوکرشاہی اب نکر (انڈرویئر) میں بھی آسکتی ہے۔‘‘

سماجوادی پارٹی نے آرایس ایس کو بتایا فرقہ پرست

 حکومت کے فیصلے پر سماجوادی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ جاوید علی خان نے کہا، ’’اس حکومت سے یہی امید تھی۔ وہ فرقہ واریت کو فروغ دیتی ہے اور فرقہ پرست تنظیم کی سرگرمیوں میں شامل ہونے کے لئے سرکاری ملازمین کو ترغیب دے رہی ہے۔ ملک کے مفاد میں یہ اچھا نہیں ہے۔ میرا ماننا ہے کہ آرایس ایس ایک فرقہ پرست تنظیم ہے اور آرایس ایس کا فلسفہ ملک کو توڑنے والا فلسفہ ہے۔‘‘

 بھارت ایکسپریس

Also Read