اسرائیل کے خلاف اقوام متحدہ نے بڑا فیصلہ کیا ہے۔
اسرائیل کے خلاف ایک بار پھرپوری دنیا متحد ہوگئی ہے اوراسے فلسطینی علاقے سے قبضہ چھوڑنے کی ڈیڈ لائن دے دی گئی ہے- یونائیٹڈ نیشنس یعنی اقوام متحدہ نے اسرائیل -حماس جنگ کے درمیان اسرائیل کوغزہ چھوڑنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ اقوام متحدہ میں ایک ووٹنگ کے ذریعہ اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ایک سال کے اندر اندر فلسطینی قبضہ والے علاقے سے ہٹ جائے اورفلسطینی علاقے کوپوری طرح سے خالی کردے۔ اس طرح سے اقوام متحدہ میں ہوئی اس ووٹنگ میں واضح طورپراسرائیل کے خلاف ماحول دیکھا جاسکتا ہے۔ آپ کو بتادیں کہ یواین میں اسرائیل کے خلاف 124 ووٹ پڑے ہیں جبکہ اسرائیل کی حمایت میں صرف 14 ووٹ پڑے اور43 اراکین ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف بڑے پیمانے پرہوئی ووٹنگ سے بنجامن نیتن یاہوحکومت کے لئے بڑا جھٹکا مانا جا رہا ہے۔ بین الاقوامی سطح پراسرائیل ایک بارپھرالگ تھلک پڑگیا ہے اوراب اس کومعصوم اوربے گناہ لوگوں کے قتل عام کوروک دینا چاہئے۔
یواین کے ریزرولیشن یعنی اقوام متحدہ کے قرارداد میں اعلیٰ ترین عدالت یعنی عالمی عدالت انصاف یا انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کے ذریعہ کئے گئے تبصروں کی بھی حمایت کی گئی ہے۔ اس تبصرے میں کہا گیا ہے کہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کی موجودگی غیرقانونی ہے اوراسے ختم ہونا چاہئے۔ آپ کوبتا دیں کہ عدالت نے جولائی میں فیصلہ دیا تھا کہ اسرائیل ایک قابض طاقت کے طورپراپنی حیثیت کا غلط استعمال کررہا ہے۔ عدالت نے اس بات پرزور دیتے ہوئے کہا تھا کہ ویسٹ بینک اورشمالی یروشلم میں اسرائیل کی غیرقانونی بستیاں ہیں۔ اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف اور قرارداد کی حمایت میں 124 ووٹ پڑے۔ جبکہ اسرائیل کی حمایت میں صرف 14 ووٹ پڑے، جن میں امریکہ، کناڈا، آسٹریلیا ، جرمنی، ارجنٹینا، فرانس، فن لینڈ، میکسیکو ،ہنگری اور یوکرین شامل ہیں۔ ان ممالک نے ظالم اسرائیل کی ایک بار پھر حمایت کی اورمظلوم فلسطینیوں پر ظلم کرنے جیسے واقعات کے لئے اپنی آنکھیں بند کرلیں۔
آئیے اب آپ کو بتاتے ہیں کہ یو این کا قرار دیا کیا ہے؟امریکہ میں اقوام متحدہ کی سالانہ میٹنگ سے عین قبل اقوام متحدہ جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد پیش کیا، جس میں فلسطین سے اسرائیل کے ہٹنے کی بات کہی گئی۔ کل 124 ممالک نے اس قرارداد کی حمایت کی۔ یہ ثابت کرتا ہےکہ دنیا کا بڑا حصہ اسرائیل کو ظالم اور قابل مانتا ہے، اسی لئے اسے فلسطینی حصہ کو خالی کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ قرار داد کے خلاف کھڑے ممالک میں امریکہ سرفہرست ہے، جواسرائیل کا دوست مانا جاتا ہے اور وہ وقتاً فوقتاً گھڑیالی آنسو بھی بہاتا ہے اور جب جب اسرائیل کو کنٹرول کرنے کی بات سامنے آتی ہے تو وہ اسرائیل کی حمایت میں کھڑا ہوجاتا ہے ۔ اراکین ممالک میں 43 ممالک اس سے غائب بھی رہے۔ ہندوستان بھی اس میں سے ایک تھا۔ ہندوستان نے اس قرار داد کے خلاف یا حمایت میں بولنے سے دوری بنائے رکھی۔
ریزولیشن کے مطابق، اسرائیل کو آئندہ 12 ماہ کے اندر فلسطین پر قبضہ کئے ہوئے حصوں سے اپنی فوج اور لوگ ہٹانے ہوں گے۔ ساتھ ہی قبضہ کی وجہ سے ہوئے نقصان کی بھرپائی کے لئے بھی اسرائیل پیسے اور ریسورس دے۔ اس سے پہلے انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس نے بھی مانا تھا کہ فلسطین کے مقبوضہ حصے پر موجودگی غیرقانونی ہے۔ واضح رہے کہ یہ عدالت بھی اقوام متحدہ کی ہی ایک یونٹ ہے۔ جولائی میں عدالت کی اس بات کے بعد سے ہی یو این مسلسل اسرائیل کو وارننگ دیتا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی اس قرار داد سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ اسرائیل کی ہٹ دھرمی کے خلاف پوری دنیا ہے، صرف وہی ممالک اسرائیل کی حمایت میں ہیں، جو اس کی پشت پناہی کرتے ہیں، لیکن 124 ممالک نے یہ ثابت کردیا ہے کہ اسرائیل ظالم ہے اوروہ فلسطین پرقبضہ کرکے بیٹھا ہوا ہے، اس لئے اسرائیل کے ظلم کو برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ ان سب کے درمیان اقوام متحدہ کے اس قراردادکوماننے کے لئے اسرائیل مجبورنہیں ہے، اس لئے ظالم اسرائیل اس پردھیان نہیں دے گا۔ وہیں اس معاملے پر اقوام متحدہ پربھی سوال اٹھتا ہے کہ اگر وہ واقعی فلسطین سے اسرائیلی قبضے کو ہٹانا چاہتا ہے، تو پھرجوایک سال کی مہلت دی گئی ہے، وہ اتنی طویل نہیں ہوتی بلکہ اس سے کم ڈیڈ لائن دی جانی چاہئے۔ بہرحال اسرائیل اپنی ہٹ دھرمی سے کب باز آئے گا، یہ سب سے بڑا سوال ہے، جس کے جواب کا انتظار کرنا ہوگا۔
بھارت ایکسپریس–