ایک طرف فرانس، وینزویلا اور امریکہ سمیت دنیا بھر کے متعدد ممالک میں فلسطین کے حق میں طلبا ء کے مظاہرے ہورہے ہیں ، وہیں دوسری طرف عوامی احتجاج بھی اپنے شباب پر ہے اور یہ سب صرف اس لئے ہورہا ہے تاکہ اسرائیل غزہ اور فلسطین میں قتل عام کو روک دے اور وہاں کے لوگوں کی زندگی کو باقی رہنے دیں ۔ جنگ روکنے کی اپیل مہینوں سے ہورہی ہے لیکن اس کا اثر اسرائیل پر کچھ خاص ہوتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا ہے ،البتہ اب کچھ ممالک نے کچھ بڑے فیصلے لینے شروع کردئے ہیں ،ان میں کولمبیا کی تازہ ترین مثال ہے جس نے اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا آج اعلان کردیا ہے ۔ وہیں دوسری طرف ترکیہ نے بھی ایک بڑا فیصلہ کیا ہے۔
دراصل بلوم برگ نیوز نے دو ترک عہدیداروں کے حوالے سے خبر دی ہے کہ ترکی نے جمعرات سے اسرائیل کو اور وہاں سے تمام برآمدات اور درآمدات روک دی ہیں۔اسرائیل کے وزیر خارجہ نے ردعمل میں کہا کہ ترک صدر طیب اردگان اسرائیلی درآمدات اور برآمدات کے لیے اپنی بندرگاہوں کو بند کر کے معاہدے کو توڑ رہے ہیں۔ بدھ کو ترکی کے وزیر خارجہ ہاکان فیدان نے کہا تھا کہ ترکی عالمی عدالت انصاف میں اسرائیل کے خلاف جنوبی افریقہ کی نسل کشی کے مقدمے میں فریق بنے گا۔
انقرہ میں انڈونیشیا کے وزیر خارجہ ریٹنو مارسودی کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں فیدان نے کہا تھا کہ ترکی ہر صورت میں فلسطینی عوام کی حمایت جاری رکھے گا۔جنوبی افریقہ کی جانب سے اسرائیل پر غزہ میں ریاستی نسل کشی کا الزام عائد کیے جانے کے بعد عالمی عدالت انصاف نے جنوری میں اسرائیل کو حکم دیا تھا کہ وہ نسل کشی کنونشن کے تحت آنے والے کسی بھی اقدام سے باز رہے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ اس کی افواج فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی نہ کریں۔جنوری میں صدر رجب طیب اردوغان نے کہا تھا کہ ترکی عالمی عدالتِ انصاف میں کیس کے لیے دستاویزات فراہم کر رہا ہے۔
بھارت ایکسپریس۔