بیجنگ میں چینی صدر سے ملاقات کرتے ہوئے فلسطینی صدر محمود عباس
Palestine issue, President Abbas is in Beijing: عالمی سطح پر امریکی اثر ورسوخ کو کم کرنے کے مشن پر گامزن چین نے سعودی عرب – ایران کے تعلقات بحال کرانے کے بعد مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کیلئے کوششیں شروع کردی ہے۔ قضیہ فلسطین کے ازالے کیلئے عالمی برادری کی بیان بازی کے بیچ چین نے اس پر کافی سنجیدگی سے کام کرنا شروع کردیا ہے چونکہ چین کو معلوم ہے کہ اگر سعودی عرب – ایران کے بعد مسئلہ فلسطین کا ازالہ کرنے میں کامیابی مل جاتی ہے تو پھر عالمی سطح پر امریکی اثرورسوخ یا دبدبہ کم ہوسکتا ہےاور چین ایک نئی پہچان کے ساتھ بڑی کامیابی حاصل کرلے گا ۔ اسی مقصد سے چین نے اب مشن فلسطین پر قدم بڑھانا شروع کردیا ہے اور اس وقت وہ فلسطینی صدر محمود عباس کی بیجنگ میں میزبانی کررہا ہے۔ فلسطین کے صدر قریب پانچ سال بعد ایک بار پھر چین کے سرکارے دورے پر ہیں ،جہاں چینی صدرشی جنپنگ نے ان کا پرتپاک استقبال کیا ہے۔
مسئلہ فلسطین کا حل آزاد فلسطینی ریاست کے قیام میں مضمر
چین کے صدر شی جن پنگ نے بیجنگ میں اپنے فلسطینی ہم منصب محمود عباس سے ملاقات کے دوران کہا کہ چین اسرائیل کے ساتھ امن کے حصول میں فلسطینیوں کی مدد کے لیے مثبت کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ چین کے سرکاری میڈیا کے مطابق بدھ کے روز چینی صدر شی جنپنگ نے کہا کہ مسئلہ فلسطین کا بنیادی حل 1967 کی سرحدوں پر مبنی ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام میں مضمر ہے جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو۔ شی جنپنگ نے مزید کہا کہ عالمی برادری کو فلسطینیوں کے لیے ترقیاتی امداد اور انسانی امداد میں اضافہ کرنا چاہیے۔ چین نے یہ بھی اعلان کیا کہ اس نے فلسطین کے ساتھ ’’اسٹریٹجک پارٹنرشپ‘‘ قائم کی ہے۔ واضح رہے کہ فلسطینی مغربی کنارے، غزہ اور مشرقی یروشلم میں ریاست کا درجہ چاہتے ہیں، جس پر 1967 کی مشرق وسطیٰ کی جنگ میں اسرائیل نے قبضہ کرلیا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ اسرائیل نے 2005 میں غزہ چھوڑ دیا لیکن مغربی کنارے میں بستیوں کی توسیع جاری رکھی اور یروشلم کو اپنا ابدی، ناقابل تقسیم دارالحکومت قرار دیا۔ یاد رہے کہ چین سے قبل امریکہ نے بھی مسئلہ فلسطین کے ازالے کیلئے مفاہمت کا دروازہ کھولا تھا لیکن امریکہ کی ثالثی میں ہونے والے امن مذاکرات 2014 سے منجمد ہیں۔
محمود عباس کا تین روزہ سرکاری دورہ
فلسطینی صدر محمودعباس تین روزہ دورے پر بیجنگ میں ہیں جس میں انہیں امید ہے کہ وہ فلسطینی ریاست کے لیے چینی حمایت حاصل کریں گے، جب کہ وہ گزشتہ سال نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے لیے امریکی حکام سے ملاقات میں ناکام رہے تھے۔ چین کے فلسطینیوں کے ساتھ تاریخی طور پر اچھے تعلقات ہیں اور عباس کے 2017 کے آخری دورے کے بعد سے مسلسل ثالثی کے حوالے سے اپنی صلاحیتوں پر بات کی گئی ہے، البتہ پیش رفت بہت کم ہوئی ۔ اس بیچ چین نے سعودی اور ایران کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے کا کام شروع کیا اور رواں سال کے مارچ مہینے میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کے لیے ایک حیرت انگیز ڈیل کرادی، جس کے بعد اب سعودی عرب ایران کے تعلقات بہتری ہوتے چلے جارہے ہیں ۔ سعودی ایران کے بعد چین نے مشن فلسطین پر تیزی سے کام شروع کردیا ہے اور اسی سلسلے میں محمود عباس کا یہ دورہ کافی اہم مانا جارہا ہے۔
فلسطینی صدر محمود عباس کے اس سرکاری دورے کے آغاز پر صدرشی جنپنگ نے بیجنگ کے عظیم ہال آف دی پیپل میں ایک استقبالیہ تقریب کا انعقاد کیا جس میں صدرعباس کو اس بات کی یقین دہانی کرائی گئی کہ ہم نے ہمیشہ فلسطینی عوام اوران کے جائز قومی حقوق کی بحالی کے منصفانہ مقصد کی مضبوطی سے حمایت کی ہے۔شی اور عباس نے یہ بھی اعلان کیا کہ فریقین نے اسٹریٹجک پارٹنرشپ قائم کرنے پر اتفاق کیا ہے اور اقتصادی و تکنیکی تعاون کے معاہدے سمیت متعدد دو طرفہ معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔ واضح رہے کہ 13 جون کو چینی وزیر خارجہ کن گینگ نے فلسطینی ہم منصب ریاض المالکی کے ساتھ ایک الگ ملاقات میں “مسئلہ فلسطین” میں چین کے ثالثی بننے کی پیشکش کی تھی۔
بھارت ایکسپریس۔