حماس اسرائیل کی جنگ تین ماہ بعد بھی جاری ہے اورآج بھی یومیہ اسی خوفناک و مہلک صبح وشام کا مشاہدہ غزہ کررہا ہے جس کا مشاہدہ اکتوبر کے مہینے میں کیا تھا۔ ہر روز سینکروں کی تعداد میں غزہ کے معصوم شہری اسرائیلی حملوں میں جاں بحق ہورہے ہیں ۔ اسپتال اسکول ،پناہ گاہ ہر جگہ اندھادھند اسرائیل بم باری کررہا ہے اور معصوموں کی ہلاکتوں کی تعداد میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے ،اور جو لوگ گولہ وبم وبارود سے بچ جارہے ہیں وہ بھوک وپیاس سے موت کے دہانے پر ہیں ۔ اس بیچ اب تک کی جنگ کا نقصان غزہ کو ایک تاریخی تباہی کی شکل میں ہوتا دکھائی دے رہا ہے ۔ ابھی تک غزہ میں تقریباً 30,000 افراد ہلاک یا لاپتہ ہیں ۔غزہ کے سرکاری میڈیا آفس کے ڈائریکٹر نے بتایا کہ اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں اب 29,000 سے زائد افراد ہلاک یا لاپتہ ہو چکے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق 7000 سے زائد افراد اب بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔غزہ سٹی اور شمالی غزہ کی پٹی کے تقریباً 800,000 رہائشیوں کو ہسپتالوں تک رسائی نہیں ہے۔لاپتہ یا ملبے تلے دبی لاشوں کو چھوڑکر صرف حتمی شہادتوں کا ذکر کریں تو یہ تعداد بھی 21 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔
نتن یاہو کو سخت سیاسی اختلافات کا سامنا
اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے جنگی کابینہ کا اجلاس طلب کیا ہے جس میں قیدیوں کے تبادلے پر بات کی جائے گی۔ وہ اس بارے میں بھی بات کرنا چاہتے تھے کہ جنگ کے اگلے دن غزہ کا کیا ہونا چاہیے، لیکن ان کی کابینہ کے ایک رکن بیزلیل سموٹریچ نے کہا کہ یہ سیکیورٹی کابینہ کا کام ہے، جنگی کابینہ کا نہیں۔ بینجمن نیتن یاہو، یہ سمجھتے ہوئے کہ وہ اپنی حکومت میں ایک اہم کھلاڑی کو کھونا نہیں چاہتے، میٹنگ منسوخ کر دی۔ایک اور پیچیدگی ہے۔ سموٹریچ اس خیال کے خلاف ہے کہ فلسطینی کارکنوں سے وصول کیے گئے ٹیکس کو فلسطینی اتھارٹی کو بھیجے جائیں، کیونکہ ان کا خیال ہے کہ اس رقم کو غزہ تک پہنچایا جائے گا۔ امریکہ اس رقم کو فلسطینیوں تک پہنچانے کے لیے بہت بے چین ہے۔لہذا، بنجمن نیتن یاہو کو اب ایک بڑا فیصلہ کرنا ہے۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ وہ کتنا مضبوط اتحادی رہا ہے، کیا وہ [امریکی صدر] جو بائیڈن کو وہ دیتا ہے جو وہ چاہتا ہے، یا وہ اس کے خلاف جاتا ہے جو سموٹریچ چاہتا ہے ۔ اس بیچ نتن یاہو کی حکومت گرنے اور کرسی سے ہاتھ دھو بیٹھنے کا خطرہ بڑھتا چلا جارہا ہے۔
سیز فائر کا مصری منصوبہ
حماس کا وفد آج قاہرہ میں فائر بندی کے مصری منصوبے کے بارے میں اپنے ’مؤقف‘ سے آگاہ کرے گا۔حماس کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ قاہرہ کے تین مرحلوں پر مشتمل منصوبے میں قابل تجدید فائر بندی، اسرائیل میں فلسطینی قیدیوں کے بدلے حماس کے زیر حراست قیدیوں کی مرحلہ وار رہائی اور بالآخر لڑائی کے خاتمے کے لیے سیزفائر شامل ہے۔اس منصوبے میں ’تمام فلسطینی دھڑوں‘ کو شامل کر کے ہونے والے مذاکرات کے بعد ٹیکنوکریٹس پر مشتمل فلسطینی حکومت کا قیام بھی شامل ہے، جو لڑائی ختم ہونے کے بعد غزہ میں حکمرانی اور تعمیر نو کی ذمہ دار ہوگی۔حماس کے ایک عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’وفد فلسطینی دھڑوں کی طرف سے جواب دے گا، جس میں قیدیوں کے تبادلے کی تفصیلات اور اسرائیلی فوج کے مکمل انخلا کی ضمانت کے حوالے سے متعدد مشاہدات بھی شامل ہیں۔‘
بھارت ایکسپریس۔