ایران نے لبنان اور غزہ میں فوجی امداد سے ہاتھ پیچھے کھینچ لیا ہے ،حالانکہ لبنان میں زمینی آپریشن کیلئے امریکہ نے اسرائیل کے حق میں فوجی تعداد بڑھا دی ہے،لیکن ایران نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی فوج کو لبنان یا غز ہ نہیں بھیجے گا۔ایران کی وزارت خارجہ نے ان خبروں کی تردید کی ہے جن میں کہا گیا تھا کہ ایران لبنان میں اسرائیلی سے جنگ کے لیے رضاکار افواج بھیجنے کی تیاری کر رہا ہے۔ تہران میں میڈیا اداروں سے بات کرتے ہوئے ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کینانی کا کہنا تھا کہ ’علاقے کے ممالک اور قومیں صہیونی حکومت کی جارحیت کے خلاف اپنا دفاع کرنے کے قابل ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ ’ایران سے رضاکار فورس بھیجنے کی کوئی ضرورت نہیں اور ایران کو کسی کی طرف سے کوئی درخواست نہیں ملی۔
ناصر کینانی نے کہا کہ ’صہیونی حکومت حالیہ برسوں میں متعدد شکستوں کی وجہ سے مزاحمتی گروپوں کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہی ہے۔انہوں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ ’لبنان میں فضائی حملوں اور امریکی بموں کا استعمال دیکھا گیا۔انہوں نے کہا کہ ’لبنان نے ثابت کیا کہ وہ صہیونی حکومت کو شکست دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔واضح رہے کہ ایران کی جانب سے یہ وضاحت ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہے کہ جب چند دن قبل اسرائیلی حملے میں حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ اپنی بیٹی سمیت شہید ہو گئے تھے اور اس کے بات یہ افواہیں زیر گردش تھیں کہ ایران اس حملے کا بدلہ لینے کے لیے اپنے فوجی دستے اسرائیل بھیجے گا۔
ادھر پیر کو پیر ایرانی صدر مسعود پیزشکیان نے تہران میں حزب اللہ کے دفتر کا دورہ کیا اور حسن نصراللہ کو خراج تحسین پیش کیا۔ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے حسن نصراللہ کے قتل کا بدلہ لینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی شہادت رائیگاں نہیں جائے گی جبکہ نائب صدر محمد رضا عارف نے کہا تھا کہ یہ کارروائی اسرائیلی تباہی کو جنم دے گی۔
بھارت ایکسپریس۔