ترک صدر رجب طیب اردوغان نے 24 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران کشمیر کا ذکر نہیں کیا۔ یہ برسوں میں پہلا موقع ہے کہ اردوغان نے اقوام متحدہ میں کشمیر کا مسئلہ نہیں اٹھایا جو اس سے پہلے بھی کئی بار ان کی تقریروں کا اہم حصہ رہا ہے۔ جب 5 اگست 2019 کو مرکزی حکومت نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا تھا تو اردوغان نے اسی سال ستمبر میں اقوام متحدہ میں کشمیر کی حمایت کی تھی اور خصوصی حیثیت کے خاتمے کی کھل کر مخالفت کی تھی۔ اس کے بعد سے اردوغان ہر سال اقوام متحدہ میں کشمیر کا مسئلہ اٹھاتے رہے جس پر پاکستان نے ہمیشہ ان کی تعریف کی ہے۔ لیکن اس بار انہوں نے ایسا نہیں کیا۔
ایسے میں سوال یہ ہےکہ آخر اس کے پیچھے کی وجہ کیا ہے۔ماہرین کا خیال ہے کہ ترکیہ کی اس حکمت عملی کا تعلق اس کی برکس میں شمولیت کے عزائم سے ہو سکتا ہے۔ چونکہ ترکیہ برکس میں رکنیت کا خواہاں ہے، اور اس کے لیے ہندوستان کی رضامندی ضروری ہے، کیونکہ ہندوستان اس گروپ کے بانی اراکین میں سے ایک ہے۔ اردوغان نے یہ قدم ایسے وقت میں اٹھایا ہے جب جموں و کشمیر میں انتخابی عمل جاری ہے اور اکتوبر کے آخر میں روس میں برکس سربراہی اجلاس ہونے جا رہا ہے۔ اپنی تقریر میں اردوغان نے غزہ پر اقوام متحدہ کی بے عملی کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اسرائیل پر الزام لگایا کہ وہ فلسطینی سرزمین کو “بچوں اور خواتین کا دنیا کا سب سے بڑا قبرستان” میں تبدیل کر رہا ہے۔
کشمیر مسئلے سے اجتناب پر ترکیہ کا یہ قدم عالمی دنیا میں موضوع بحث ہے اور ہر جگہ اس کے معنی جاننے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل کے سینئر فیلو وجاہت ایس خان نے ترکیہ کے موقف پر ایک ویڈیو پوسٹ کی اور کہا کہ ’اردوغان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی ہر تقریر میں نمایاں طور پر کشمیر کا ذکر کرتے تھے لیکن اس بار ایسا نہیں کیا۔ انہوں نے قبرص کا ذکر کیا، لبنان اور اسرائیل کا مسئلہ اٹھایا۔ شام کے بارے میں بات کی۔ لیبیا کے بارے میں کہا اور یوکرین کو نہیں بھولے لیکن کشمیر کو بھول گئے ۔خان کہتے ہیں کہ ’اردوغان ایک ایسے عالمی رہنما تھے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے کشمیر کا ذکر کرتے تھے لیکن انہوں نے اس بار کشمیر کو نظر انداز کیا۔ ترکیہ پاکستان کا دوست تھا لیکن دوستی کو کیا ہوا؟ ملائیشیا کو بھی اب کشمیر کی فکر نہیں۔ ملائیشیا کے وزیراعظم انور ابراہیم نے کہا کہ کشمیر بھارت کا اندرونی مسئلہ ہے۔ صرف برکس میں داخلہ ہی نہیں، یہ ترکیہ کی آرزو بھی ہے
جب یہ سوال پوچھا گیا کہ اردوغان نے ایسا کیوں کیا؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے تلمیز احمد، جو سعودی عرب میں ہندوستان کے سفیر تھے، کہتے ہیں کہ ترکیہ اب سیاسی اسلام سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہے۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق تلمیز احمد کا کہنا ہے کہ اردوغان کا رویہ بدل گیا ہے۔ پہلے وہ سیاسی اسلام کی حمایت کرتے تھے لیکن آج کل وہ علاقائی مسائل کو سیاسی اسلام کے نقطہ نظر سے نہیں دیکھ رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سعودی، متحدہ عرب امارات اور مصر سیاسی اسلام کی حمایت نہیں کرتے اور اردوغان ان تینوں ممالک کے ساتھ تعلقات بڑھا رہے ہیں۔ ایسے میں ترکیہ کو اپنی پرانی سیاست چھوڑنی ہوگی۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ساتھ قربت بھی اردوغان کے سیاسی اسلام کی وجہ سے ہے۔ ایسے میں اگر یہ پالیسی کمزور پڑتی ہے تو پاکستان بھی ترکیہ کے لیے زیادہ موزوں نہیں رہے گا۔
اردوغان نے کب کب کشمیر کا مسئلہ اٹھایا
گزشتہ سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے اردوغان نے کشمیر کے بارے میں کہا تھا کہ ’’اگر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تعاون اور بات چیت سے کشمیر میں امن آئے گا تو اس سے جنوب میں امن آئے گا، ایشیا میں امن، استحکام اور خوشحالی کی راہیں کھلیں گی۔سال 2022 میں اردوغان نے اقوام متحدہ کی 77ویں جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’75 سال قبل ہندوستان اور پاکستان دو خودمختار ملک بن گئے تھے لیکن دونوں کے درمیان امن اور اتحاد قائم نہیں ہو سکے۔ یہ انتہائی افسوس ناک ہے۔ سال 2021 میں کشمیر میں مناسب اور دیرپا امن قائم کی دعا کرتے ہوئے اردوغان نے کہا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت حل ہونا چاہیے۔ سال 2020 میں انہوں نے کہا کہ کشمیر ایک سلگتا ہوا مسئلہ ہے اور 370 کو ہٹانے نے اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ سال 2019 میں اردوغان نے کہا تھا کہ جموں و کشمیر میں ناکہ بندی ہے۔ اگر اس طرح دیکھا جائے تو ترکیہ جس نے کشمیر پر بہت سخت موقف اختیار کیا تھا آہستہ آہستہ نرم ہوتا گیا اور اس سال اس نے مسئلہ کشمیر کا ذکر تک نہیں کیا۔
بھارت ایکسپریس۔