پاکستان کی حکومت میں دبدبہ قائم رکھنے کے لئے فوج کبھی بھی تختہ پلٹ کرسکتی ہے۔
پاکستان میں عام انتخابات کے دو ہفتے کے بعد اتحادی حکومت کا خاکہ تیار ہوگیا ہے۔ شہباز شریف وزیراعظم عہدے کا حلف لینے والے ہیں۔ اس کے باوجود ملک میں فی الحال کسی تبدیلی کا امکان نہیں ہے۔ حالات مزید بدترہوسکتے ہیں کیونکہ الیکشن کے جو نتیجے آئے ہیں، وہ ایک نئی تبدیلی کا اشارہ دے رہے ہیں۔ پاکستان میں نیا سورج اگتا ہوا واضح طور پر دکھائی دے رہا ہے۔ نتیجے پاکستانی فوج کے اثرکو کم کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں، جس طریقے سے 90 سے زیادہ جیل میں بند پی ٹی آئی لیڈر عمران خان کے حامیوں کو جیت ملی ہے، وہ پاکستانی عوام میں بیداری کی علامت ہے۔
انتخابی نتائج یہ بھی بتاتے ہیں کہ بغیرپارٹی کے الیکشن لڑنے پرجب عمران خان کے حامیوں نے اتنی سیٹیں جیت لیں، اگروہ جیل سے باہرہوتے اور پارٹی کے بینرپرالیکشن لڑتے تو فوج کے چاہنے کے باوجود ان کی پارٹی واضح اکثریت سے حکومت بنا رہی ہوتی۔ سیٹیں جیتنے والے آزاد امیدواروں میں بہت بڑی تعداد عمران خان کے حامیوں کی ہے۔ انہیں الیکشن میں روکنے کے لئے مختلف کوششیں کی گئیں۔ کبھی فوج نے تو کبھی پولیس نے روکا۔ ہرطرف سے انہیں روکنے کی کوشش ہوئی، لیکن جس طرح سے نوجوان اورخواتین رائے دہندگان نے عمران خان کے حامیوں کو ووٹ دیا ہے، وہ یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ پاکستان میں تبدیلی آرہی ہے۔ اب وہاں سب کچھ وہ نہیں ہوگا جو فوج چاہے گی۔
کیا اقتصادی بحران سے ملے گی راحت
نوازشریف کی پارٹی رسمی طورپراس الیکشن میں واضح اکثریت سے بہت دورہے۔ ایسے میں الائنس کی حکومت ہی بننے جا رہی ہے۔ نئی حکومت اقتصادی بحران سے جدوجہد کر رہی پاکستان کو کیا راحت دلا پائے گی اور کتنا، ابھی یہ دیکھا جانا باقی ہے کیونکہ جیل میں بند عمران خان کے حامی خاموش نہیں ہیں۔ وہ مسلسل حملہ آورہیں۔ احتجاج کررہے ہیں۔ عام عوام ابھی بھی عمران خان کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہی ہے، لیکن فوج کی شہہ پر ان پرجو قانونی شکنجہ کسا ہے، وہ اس صورتحال میں باہرنہیں آنے والے ہیں۔ فوج اورحکومت، دونوں ایسا نہیں چاہیں گے کہ عمران خان جیل سے باہرآئیں اورعمران خان کے حامی اراکین پارلیمنٹ خاموش نہیں بیٹھنے والے۔ ایسے میں ملک میں بدامنی بنی رہنے کا خدشہ ہے۔ جب بدامنی کی صورتحال بنی رہے گی تو ترقی کی بات کیسے ہوگی؟ شاید انہیں نکات کو دیکھتے ہوئے اورسمجھتے ہوئے نوازشریف خود وزیراعظم عہدے کا حلف نہیں لے رہے ہیں کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ حکومت ہچکولے کھاتے ہوئے ہی چلنے والی ہے۔
کوئی وزیراعظم نہیں پوری کرسکا ہے مدت کار
ویسے بھی پاکستانی تاریخ میں کسی وزیراعظم نے اپنی پوری مدت پوری نہیں کرسکا ہے۔ ایسے میں نوازشریف نے خطرہ مول لینا مناسب نہیں سمجھا۔ عمرکے اس مرحلے میں وہ لوگوں کے مزاج کو آسانی سے سمجھ رہے ہیں۔ فوج کی مدد سے پوری قوت سے الیکشن لڑنے کے باوجود وہ 100 کا ہندسہ بھی نہ چھوسکے اورعمران خان کے حامی امیدواروں سے کافی پیچھے رہ گئے۔ یہ کوئی عام واقعہ نہیں ہے۔ یہ نوازشریف سے زیادہ فوج کے لئے زیادہ تشویشناک ہے، جہاں پاکستانی عوام نے، بمشکل 58 فیصد شرح خواندگی کے ساتھ، عمران کی حمایت کرنے والے آزاد امیدواروں کو اس کے ارادوں کے خلاف ووٹ دیا ہے۔ ایسے میں فوج بھی خاموشی سے بیٹھنے والی نہیں ہے۔ عوام سڑکوں پرہیں، عمران خان جیل میں ہیں، مخلوط حکومت بننے والی ہے، ایسے میں اقتدارکی کنجی دراصل فوج کے پاس ہی رہنے والی ہے۔ ایسی صورت حال میں عمران خان کے حامیوں کو طویل عرصے تک اس کا معاوضہ ادا کرنا پڑے گا۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ فوج بڑے پیمانے پرمہم شروع کرسکتی ہے، جس میں عمران کی حمایت کرنے والے اراکین پارلیمنٹ اوراہم رہنماؤں کوجیل بھیجا جائے گا۔ تاہم اگرایسا ہوا بھی توملک میں بغاوت کی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے اورایک غیرمستحکم ملک کی ترقی کا تصوربھی نہیں کیا جاسکتا۔
عمران خان کو جیل سے باہرنہیں آنے دینا چاہتے عاصم منیر؟
موجودہ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیراحمد کی مدت کارکم سے کم 27 نومبر 2025 تک چلنے والی ہے۔ ایسے میں وہ پوری کوشش کریں گے کہ عمران خان جیل سے باہرنہ آنے پائیں کیونکہ عاصم منیرسے راست طور پراختلاف کرنے کی وجہ سے ہی عمران خان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اوروہ جیل میں ہیں۔ الیکشن ہونے کےعلاوہ کوئی تبدیلی ملک میں نہیں ہوئی ہے۔ جو شہباز شریف وزیراعظم بننے جا رہے ہیں، وہ اوران کی پارٹی پورے الیکشن میں بلاول بھٹوکی پارٹی کے خلاف آگ اگلتے رہے ہیں، اب دونوں الائنس میں حکومت چلانے جا رہے ہیں، ایسے میں امید یہی ہے کہ فوج کا دبدبہ برقرار رہے گا۔
تجارت بھی کرتی ہیں پاکستانی فوج
باہرکی دنیا میں کم لوگ جانتے ہیں کہ پاکستانی فوج صرف ملک کی سیکورٹی اورتحفظ کے لئے کام نہیں کرتی ہے بلکہ وہ کئی صنعتی سرگرمیوں کی آپریٹنگ بھی کرتی ہے۔ ملک میں بھلے ہی کساد بازاری، معاشی تباہی کا شکار ہے، لوگ بھوک سے مررہے ہیں، لیکن فوج کی دولت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ اسی وجہ سے کئی فوجی افسران پرکرپشن یعنی بدعنوانی کے الزامات بھی لگ چکے ہیں۔ دہلی یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسرڈاکٹرابھیشیک پرتاپ سنگھ کا اندازہ ہے کہ پاکستان کی موجودہ صورتحال میں مخلوط حکومت ایک سال تک چل سکتی ہے۔ اس کے بعد فوج بغاوت کرسکتی ہے کیونکہ موجودہ آرمی چیف کسی بھی حالت میں عمران خان کوجیل سے باہرنہیں آنے دینا چاہتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں جب ان کا دوراقتدارختم ہونے کے قریب ہے، فوج بدامنی، عدم استحکام وغیرہ کے الزامات کے تحت بغاوت کرکے ملک پر باضابطہ طورپرقبضہ کر سکتی ہے۔
بھارت ایکسپریس۔