Bharat Express

عبادت گاہوں کے تحفظ پرسپریم کورٹ میں 4 دسمبرکوہوگی سماعت، مولانا ارشد مدنی نے کہا- ملک کے امن اتحاد اورانصاف کی برقراری کے لئے اس قانون کا باقی رہنا ضروری

جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے سپریم کورٹ کے سینئر وکلاء راجو رام چندرن اور ورندا گروور اس قانون کے حق میں اپنے دلائل پیش کریں گے۔

جمعیۃ علماء ہند کی عرضی پر عباد ت گاہوں کے تحفظ کے قانون کی آئینی حیثیت پر 4 دسمبر کوسپریم کورٹ میں سماعت ہوگی۔

نئی دہلی: سنبھل سانحہ اوراجمیردرگاہ پرہندوؤں کے دعوے کے پس منظرمیں جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کے تعلق سے داخل پٹیشن پر4 دسمبر یعنی بدھ کے روزسپریم کورٹ آف انڈیا سماعت کرے گی۔ چیف جسٹس آف انڈیا سنجیوکھنہ کی سربراہی والی دورکنی بینچ اس مقدمہ کی سماعت کرے گی، جس پرپورے ملک کی نگاہیں مرکوزہیں۔ سنبھل سانحہ کے بعد جمعیۃ علماء ہند نے اس اہم مقدمہ پرفوری سماعت کئے جانے کی گزارش کی تھی، جسے چیف جسٹس آف انڈیا نے منظورکرتے ہوئے 4 دسمبرکومقدمہ کی سماعت کئے جانے کا حکم جاری کیا۔ عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کی برقراری اوراس کے مؤثرنفاذ سے متعلق سپریم کورٹ آف انڈیا میں صدرجمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنی کی ہدایت پرداخل پٹیشن پرسینئرایڈوکیٹ راجورام چندرن اورورندا گرووربحث کریں گے۔ جمعیۃ کے وکلاء عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کوچیلنج کرنے والی عرضداشتوں پربھی عدالت میں اپنے دلائل پیش کریں گے۔

فرقہ پرستوں کا رویہ انتہائی افسوسناک: مولانا ارشد مدنی

اس پورے معاملے پراپنے ردعمل کا اظہارکرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے صدرمولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ یہ کتنی افسوسناک بات ہے کہ ہماری عبادت گاہوں اورمذہبی مقامات سے متعلق آئے دن نئے نئے تنازعات فرقہ پرستوں کی طرف سے کھڑے کئے جا رہے ہیں، مایوس کن پہلوتو یہ ہے کہ اس طرح کے معاملوں میں نچلی عدالتیں ایسے فیصلے دے رہی ہیں، جس سے ملک میں انتشارڈراورخوف کا ماحول پیدا ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے فیصلوں کی آڑمیں فرقہ پرست عناصرہی نہیں قانون کے محافظ بھی مسلمانوں کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک کررہے ہیں یہاں تک کے انہیں اپنا موقف پیش کرنے کا موقع بھی نہیں دیا جارہاہے ، سنبھل کا سانحہ کوئی معمولی سانحہ نہیں ہے بلکہ یہ ظلم اورجبرکا ایک ایسا مظاہرہ ہے، جوملک کے آئین وقانون، انصاف اورسیکولرزم کوآگ لگاتے ہوئے قانون کی دھجیاں اڑارہا ہے۔

اجمیر شریف درگاہ کے سروے سے متعلق درخواست پراٹھائے سوال

مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ نچلی عدالتوں کے فیصلوں سے فرقہ پرست عناصرکے حوصلے کچھ اس قدربڑھ گئے ہیں کہ اب انہوں نے اجمیر میں واقع سینکڑوں سال پرانی خواجہ غریب نوازکی درگا ہ پربھی ایک ہندومندرہونے کا دعوی کردیا ہے، حیرت انگیزبات تویہ ہے کہ مقامی عدالت نے اس درخواست کوسماعت کے لائق قراردے دیا ہے، اس سے ان فرقہ پرستوں کے خطرناک عزائم کوسمجھا جاسکتاہے۔ انہوں نے کہا کہ ان حالات میں سپریم کورٹ ہی انصاف اورسیکولردستورکی بقا کا آخری سہارا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم یہ بات اس بنیاد پرکہہ رہے ہیں کہ کئی ایسے اہم معاملوں میں جب ہم ہرطرف سے مایوس ہوچکے تھے، توسپریم کورٹ سے ہی ہمیں انصاف ملا ہے، اس لئے ہم پُرامید ہیں کہ 1991 کے قانون کے تعلق سے بھی ہمارے ساتھ انصاف ہوگا۔ سپریم کورٹ آف انڈیا میں 2020 میں پلیسزآف ورشپ قانون 1991 کو کالعدم قراردینے کا مانگ کرنے والی دوپٹیشن داخل کی گئی تھی، جس میں ایک پٹیشن کوعدالت نے سماعت کے لئے قبول کرتے ہوئے مرکزی حکومت کونوٹس جاری کیا ہے، یہ پٹیشن بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے تعلق رکھنے والے اشونی کماراپادھیائے (ایڈوکیٹ ) نامی شخص نے داخل کی تھی، جس کا نمبرسول رٹ پٹیشن 1246/2020 ہے۔ سادھوؤں کی ایک تنظیم کی جانب سے بھی اس قانون کوختم کرنے کی درخواست داخل کی گئی ہے، جس کا نمبر سول رٹ پٹیشن 559/2020 ہے۔ ان دنوں پٹیشن کی مخالفت کرنے کے لئے جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے مداخلت کی عرضداشت داخل کی گئی ہے۔ جمعیۃ علماء ہند نے سپریم کورٹ آف انڈیا میں ایک علیحدہ پٹیشن بھی داخل کرکے عدالت سے گذارش کی ہے کہ وہ پلیس آف ورشپ ایکٹ کی حقیقی حفاظت کرے اوراس کے مؤثرنفاذ کے لئے فوری اقدامات کرے تاکہ مسلم عبادت گاہوں کے خلاف جاری بے لگام قانونی چارہ جوئی پرلگام لک سکے۔

جمعیۃ علماء ہند نے سپریم کورٹ میں داخل کی ہے عرضی

جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے داخل پٹیشن کا نمبرسول رٹ پٹیشن 782/2022 ہے جس پرعدالت نے 9 ستمبر 2022 کو مرکزی حکومت کونوٹس جاری کیا تھا۔ اس قانون کی حفاظت کے لئے جمعیۃ علماء واحد تنظیم ہے، جس نے خصوصی پٹیشن داخل کی ہے اوراس قانون کو ختم کرنے والی پٹیشن پر ہونے والی پہلی ہی سماعت ہے۔ جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے سینئرایڈوکیٹ راجیو دھون پیش ہوئے تھے۔ پہلی سماعت 10/07/2022 کوہوئی تھی۔ جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجازمقبول نے پٹیشن اورمداخلت کارکی عرضداشتیں داخل کی ہیں۔ جمعیۃ علماء ہند کے سپریم کورٹ سے رجوع ہونے کے بعد دیگرمسلم تنظیمیں بطورمداخلت کارفریق بنی ہیں۔واضح رہے کہ پلیسزآف ورشپ قانون 18 ستمبر1991 کوپاس کیا گیا تھا، جس کے مطابق، 15 اگست 1947 کوملک آزاد ہونے کے وقت مذہبی مقامات کی جوصورتحال تھی، اسے تبدیل نہیں کیا جاسکتا ہے۔ صرف بابری مسجد تنازعہ کو اس قانون سے باہررکھا گیا تھا کیونکہ یہ معاملہ پہلے سے ہی مختلف عدالتوں میں زیرسماعت تھا۔ بابری مسجد-رام جنم بھومی ملکیت تنازعہ مقدمہ میں جمعیۃ علماء ہند اہم فریق تھی جس میں پلیسزآف ورشپ ایکٹ کی دفعہ 4 کوقبول کیا گیا ہے اوراس قانون کی آئینی حیثیت کوبھی سپریم کورٹ نے تسلیم کیا ہے، لہٰذا اب اس قانون کوچیلنج کرکے ملک کا امن واتحاد ایک بارپھرخراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، نیزاس قانون کے مؤثرنفاذ نا ہونے کی وجہ سے نچلی عدالتیں ہندو فریق کی جانب سے مسلم عبادت گاہوں کے خلاف داخل سول سوٹ پرنوٹس جاری کررہی ہیں اورکچھ عدالتوں نے سروے کرنے کا بھی حکم جاری کیا ہے۔

بھارت ایکسپریس۔