Bharat Express

Places of Worship Act 1991

واضح رہے کہ 12دسمبر کو سپریم کورٹ نے ملک بھر میں مذہبی مقامات سے متعلق نئے مقدمات درج کرنے پر پابندی لگا دی تھی۔ عدالت نے کہا تھا کہ زیر التوا مقدمات کی سماعت جاری رہ سکتی ہے۔ لیکن نچلی عدالتوں کو کوئی موثر یا حتمی حکم نہیں دینا چاہیے۔

آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسدالدین اویسی نے اپنی عرضی میں کہا ہے کہ پلیسیزآف ورشپ ایکٹ 1991 کومنسوخ نہیں کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اسے منسوخ کرنے سے ملک کا ماحول خراب ہوگا۔

مولانا محمودمدنی نے کہا کہ مسجد-مندرتلاش کرنے والے اس ملک کی یک جہتی اوراتحاد کے دشمن ہیں۔ جبکہ ہمارا مقصد اس ملک میں امن و امان کا تحفظ کرنا ہے۔

جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے عبادت گاہوں کے قانون سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ مدنی نے کہا کہ اس سے بدامنی پھیلانے والوں کو روکا جائے گا۔

سپریم کورٹ میں جمعرات (12 دسمبر، 2024) کو پلیسیزآف ورشپ ایکٹ پر سماعت ہورہی ہے۔ چیف جسٹس سنجیو کھنہ نے کہا کہ وہ اس معاملے میں سماعت کریں گے۔

سال 1991میں کانگریس کی حکومت تھی۔ اس وقت کے وزیر اعظم پی وی نرسمہا راؤ نے عبادت گاہوں کا قانون 1991 لایا تھا۔ اس ورشپ ایکٹ کو عام طور پر عبادت گاہوں کے قانون کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں متعدد عرضیاں ایسی دائر کی جاچکی ہیں جن میں ورشپ ایکٹ 1991 کو چیلنج کیا گیا ہے اور اس کو ہندووں کے ساتھ ناانصافی سے تعبیر کرتے ہوئے اس پر قانونی چارہ جوئی کی اپیل کی ہے۔

جمعیۃعلماء ہند کی درخواست چیف جسٹس سنجیو کھنہ نے خصوصی بینچ کے ذریعہ 12دسمبرکوسماعت کا حکم جاری کیا ہے۔ جمعیۃ علماء ہند نے عدالت عظمیٰ میں عرضی داخل کی ہے۔

سپریم کورٹ میں آج سے پلیسیزآف ورشپ ایکٹ 1991 کے قانونی جوازکوچیلنج کرنے والی درخواستوں پرآج سے سپریم کورٹ میں سماعت ہونے والی ہے۔ اس کے لئے چیف جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس پی وی سنجے کماراورجسٹس منموہن پرمشتمل تین ججوں کی بنچ بیٹھ گئی ہے۔

جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے سپریم کورٹ کے سینئر وکلاء راجو رام چندرن اور ورندا گروور اس قانون کے حق میں اپنے دلائل پیش کریں گے۔