Bharat Express

SC to hear on February 17 Owaisi’s plea: اسدالدین اویسی پہنچے سپریم کورٹ،ورشپ ایکٹ کو چیلنج کرنے والی عرضیوں کو خارج کرنے کی اپیل

واضح رہے کہ 12دسمبر کو سپریم کورٹ نے ملک بھر میں مذہبی مقامات سے متعلق نئے مقدمات درج کرنے پر پابندی لگا دی تھی۔ عدالت نے کہا تھا کہ زیر التوا مقدمات کی سماعت جاری رہ سکتی ہے۔ لیکن نچلی عدالتوں کو کوئی موثر یا حتمی حکم نہیں دینا چاہیے۔

آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسد الدین اویسی بھی عبادت گاہوں کے قانون کو لے کر سپریم کورٹ پہنچ گئے ہیں۔ جمعرات کو ایک مختصر سماعت میں، عدالت نے ان کی درخواست کو اس معاملے پر پہلے سے زیر التوا دیگر درخواستوں کے ساتھ جوڑ دیاہے۔ چیف جسٹس سنجیو کھنہ کی سربراہی والی بنچ نے کہا کہ وہ تمام درخواستوں پر 17 فروری کو سماعت کریں گے۔اویسی نے 1991 کے عبادت گاہوں کے قانون کو مکمل طور پر نافذ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اپنی درخواست میں مذہبی مقامات کے سروے کی مخالفت کی ہے۔ ہر مذہبی مقام کو پرانی پوزیشن  پر برقرار رکھنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے اسی طرح کی دیگر درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے 12 دسمبر کو عبوری حکم جاری کیا تھا۔ اس حکم میں، ملک بھر کی عدالتوں سے کہا گیا تھا کہ وہ فی الحال مذہبی مقامات کے سروے کا حکم نہ دیں۔

واضح رہے کہ 12دسمبر کو سپریم کورٹ نے ملک بھر میں مذہبی مقامات سے متعلق نئے مقدمات درج کرنے پر پابندی لگا دی تھی۔ عدالت نے کہا تھا کہ زیر التوا مقدمات کی سماعت جاری رہ سکتی ہے۔ لیکن نچلی عدالتوں کو کوئی موثر یا حتمی حکم نہیں دینا چاہیے۔ زیریں عدالتوں کو فی الحال سروے کا حکم بھی نہیں دینا چاہیے۔سپریم کورٹ نے یہ حکم عبادت گاہوں کے قانون 1991 کے حق میں اور اس کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے دیاتھا۔ چیف جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس پی وی سنجے کمار اور جسٹس کے وی وشواناتھن کی بنچ نے مرکزی حکومت سے 4 ہفتوں کے اندر زیر التواء درخواستوں پر اپنا جواب داخل کرنے کو کہا ہے۔ عدالت نے کہا تھا کہ درخواست گزار اس کے بعد 4 ہفتوں کے اندر اپنا جواب داخل کرے۔ سماعت کے دوران عدالت نے نوٹ کیا کہ مرکزی حکومت نے 4 سال سے زیر التوا کیس پر ابھی تک اپنا جواب داخل نہیں کیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ وہ مرکز اور عرضی گزاروں کا جواب دیکھنے کے بعد اس معاملے کی مزید سماعت کرے گی۔

آپ کو بتادیں کہ 1991کے عبادت گاہوں کے قانون (ورشپ ایکٹ)میں کہا گیا ہے کہ 15 اگست 1947 کو ملک کے  مذہبی مقامات کی حیثیت کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ اس قانون کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں کئی عرضیاں دائر کی گئی ہیں۔ ان درخواستوں میں کہا گیا ہے کہ یہ قانون ہندو، جین، سکھ اور بدھ برادریوں کو اپنے حقوق مانگنے سے محروم کرتا ہے۔ کسی بھی معاملے کو عدالت میں لانا ہر شہری کا آئینی حق ہے۔وہیں جمعیت علمائے ہند نے بھی 2020 میں عبادت گاہوں کے قانون کی حمایت میں ایک پٹیشن دائر کی تھی۔ جمعیت کا کہنا ہے کہ ایودھیا تنازعہ کے علاوہ دیگر تمام معاملات میں پلیسس آف ورشپ ایکٹ کی پیروی کی جانی چاہئے، یہ بات سپریم کورٹ نے خود کہی تھی۔ اس لیے اب اس قانون کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت نہیں ہونی چاہیے۔جمعیت کے علاوہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، کانگریس کے ترجمان آلوک شرما، آر جے ڈی کے رکن پارلیمنٹ منوج جھا، این سی پی لیڈر جتیندر اوہاد، سی پی ایم لیڈر پرکاش کرات سمیت بہت سے لوگوں نے عرضیاں دائر کی ہیں جن میں عبادت گاہوں کے قانون کو چیلنج کرنے والی تمام درخواستوں کو خارج کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ان تمام کا کہنا ہےکہ یہ قانون ہندوستان کے سیکولر ڈھانچے کے مطابق ہے۔

بھارت ایکسپریس۔

Also Read