Bharat Express

جے ڈی یو-ٹی ڈی پی کومولانا ارشد مدنی کا انتباہ، مسلمانوں کے پیٹھ میں خنجرنہیں ماریں چندرا بابونائیڈواورنتیش کمار

جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا ارشدمدنی نے آندھرا اوربہارکے وزرائے اعلیٰ کوکھلے لفظوں میں یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ اگرانہوں نے اقتدارمیں بنے رہنے کے لئے وقف ترمیمی بل پرمرکزی حکومت کی حمایت کی تومسلمانوں کی پیٹھ میں خنجرگھوپنے جیسا ہوگا۔

بہارکی راجدھانی پٹنہ کے باپوسبھا گارآڈیٹوریم میں منعقدہ تحفظ آئین ہند اورقومی یکجہتی کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے مولانا سید ارشد مدنی۔

نئی دہلی: آج بہارکی راجدھانی پٹنہ کے باپوسبھا گارآڈیٹوریم میں منعقدہ تاریخی تحفظ آئین ہند اورقومی یکجہتی کانفرنس میں شرکت کے لئے آئے ہوئے مسلمانوں کے ایک جم غفیرسے خطاب کرتے ہوئے جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا ارشدمدنی نے آندھرا اوربہارکے وزرائے اعلیٰ کوکھلے لفظوں میں یہ باورکرانے کی کوشش کی کہ اگرانہوں نے اقتدارمیں بنے رہنے کے لئے وقف ترمیمی بل پرمرکزی حکومت کی حمایت کی تومسلمانوں کی پیٹھ میں خنجرگھوپنے جیسا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اب یہ دوہری سیاست نہیں چل سکتی کہ آپ ہماراووٹ لیں اورپھر اس ووٹ کی بنیاد پرحاصل ہونے والے اقتدارکا استعمال آپ ہمارے خلاف کریں۔

وقف کو زندہ رکھنا ہمارامذہبی فریضہ: مولانا ارشد مدنی

مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ وقف کو زندہ رکھنا ہمارامذہبی فریضہ ہے کیونکہ یہ اسلام کا ایک حصہ ہے اوراسلام وہ ہے، جوکچھ اللہ نے اپنی کتاب میں کہا ہے یا پھرجس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث میں ارشاد فرمایا ہے۔ انہوں نے احادیث کے حوالوں سے یہ ثابت کیا کہ وقف کوئی نیاعمل نہیں ہے بلکہ یہ ابتدائے اسلام سے جاری وساری ہے، عام ضرورت مند لوگوں کی مدداوردیگر نیک مقاصدکے تحت پچھلے 1400 سال سے لوگ اپنی املاک اورجائیدادیں اللہ کے نام پروقف کرتے آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا پرسنل لاء قرآن وسنت پرمبنی ہے، جس میں قیامت تک کوئی ترمیم نہیں ہوسکتی۔ ایسا کہہ کرکے ہم کوئی غیرآئینی بات نہیں کررہے ہیں بلکہ سیکولرآئین نے ہمیں اس کی مکمل آزادی دی ہے۔ اسی تناظرمیں مولانا مدنی نے وقف کے تعلق سے وزیر اعظم کے حالیہ بیان پرسخت حیرت کا اظہارکیا، جس میں انہوں نے کہا ہے کہ آئین میں وقف کا کہیں ذکرنہیں ہے، اس بیان پراپنے سخت ردعمل کا اظہارکرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ابھی انہوں نے وقف سے متعلق یہ بات کہی ہے کل کو یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ نماز، روزہ حج اورزکوٰۃ کا بھی آئین میں کہیں ذکرنہیں ہے، اس لئے انہیں بند کیا جانا چاہئے۔

مسلمان شریعت میں مداخلت کوہرگز برداشت نہیں کرسکتا: مولانا مدنی

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم سے ہم اس طرح کے کمزوربیان کی توقع نہیں کرتے تھے، انہیں اگر اس بارے میں کچھ نہیں معلوم ہے تو ان لوگوں سے وہ اس بابت جانکاری حاصل کرسکتے تھے، جوآئین کے جاننے والے ہیں۔مولانا مدنی نے کہا کہ آئین کی دفعہ 25۔26 میں ملک کی تمام اقلیتوں کومذہبی آزادی دی گئی ہے اوراسی مذہبی آزادی کا ایک اہم جزوقف ہے، چنانچہ یہ ہمارامذہبی معاملہ ہے، اس لئے اس کا تحفظ کرنا اوراسے زندہ رکھنا ہمارا مذہبی فریضہ ہے۔ اگروقف املاک کوتباہ کرنے والااوروقف املاک کے قبضوں کی راہ ہموارکرنے والا یہ بل اگرپارلیمنٹ میں پیش کیا گیا توجمعیۃ علماء ہند مسلمان، دوسری اقلیتوں اورتمام انصاف پسند لوگوں کے ساتھ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اس کے خلاف ملک گیرتحریک چلائے گی، اس لئے کہ مسلمان ہرخسارے کوبرداشت کرسکتا ہے، لیکن شریعت میں کسی بھی مداخلت کوبرداشت نہیں کرسکتا۔

جمعیۃ علماء ہند کے اکابرین نے ملک کی آزادی میں اہم کردار ادا کیا
جمعیۃعلماء ہند کی تاریخ پرتفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارے اکابرین نے ملک کوغلامی کی لعنت سے آزادکرانے کے لئے اس وقت تحریک شروع کی، جب دوسری قومیں سورہی تھیں،1832 اور1857 میں ملک کی آزادی کے لئے جودوجہاد ہوئے، وہ ہمارے علماء نے کئے تھے، انگریزوں کی علماء سے نفرت اور دشمنی کا عالم یہ تھا کہ 1857میں 33 ہزارسے زائد علماء کوپھانسیوں پرلٹکا دیا گیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آزادی کے لئے جدوجہد کرنے والوں کوایک پلیٹ فارم مہیا کرنے کی غرض سے ہی جمعیۃعلماء ہند کا قیام عمل میں آیا تھا۔ انہوں نے زوردے کرکہا کہ ملک کی آزادی ہی نہیں، ملک کا سیکولرآئین بھی ہمارے اکابرین کی جدوجہد کا نتیجہ ہے، ورنہ دوقومی نظریہ کی بنیاد پرہونے والی تقسیم کے بعد کانگریس میں موجود ایک بڑا طبقہ اس حق میں تھا کہ ملک کوایک مذہبی مملکت بنا دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے اکابرین کی ہی سوچ تھی کہ ملک کی آزادی ہندووں، مسلمانوں، سکھوں اورعیسائیوں کوایک ساتھ لائے بغیرحاصل نہیں کی جاسکتی، چنانچہ انہوں نے اپنی آزادی کی جدوجہد میں سب کوشامل کیا اورکامیاب رہے۔

ہندوراشٹرنہیں بن سکتا ملک: جمعیۃ علماء ہند

جمعیۃعلماء ہند اپنے اکابرین کے دکھائے گئے راستہ پرہی چل رہی ہے، ملک کے ہرفرد کے ساتھ پیارومحبت اور احترام کے جذبوں کو روا رکھنا اورمذہب سے اوپراٹھ کرانسانیت کی بنیادپرہرایک کے ساتھ مذہبی رواداری سے پیش آنا جمعیۃعلماء ہند کامشن رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فرقہ پرستوں کی ملک کو ہندوراشٹربنانے کی کسی بھی سازش کوکامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔ مختلف مذاہب کے پیروکاراپنی مذہبی علامتوں اورتشخص کے ساتھ دستورکے تحت ہی زندہ رہ سکتے ہیں۔ انہوں نے ملک میں پھیلائی گئی نفرت کی سیاست پرگہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب ملک کے وزیراعظم اوروزیرداخلہ ہی مسلمانوں کے خلاف غیرذمہ دارانہ بیان دیں تو پھر دوسرے لوگوں کو زہریلابیان دینے سے کون روک سکتا ہے۔

ہیمنتا بسوا سرما پر بڑا حملہ

آسام کے وزیراعلیٰ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ شخص جب سے وزیراعلیٰ بنا ہے مسلمانوں کے خلاف مسلسل زہراگل رہا ہے، مسلمانوں سے اس شخص کواتنی نفرت ہے کہ یہ ان کا نام نہیں لیتا بلکہ ان کو گھس پیٹھیا کہتا ہے۔ قابل ذکرہے کہ جھارکھنڈ کے حالیہ الیکشن میں ہیمنتا بسوا سرما نے ہرجگہ زہریلی تقریریں کیں اورمسلمانوں کوگھس پیٹھیا کہا۔ مولانا مدنی نے کہا کہ جھارکھنڈ کے ہندوؤں مسلمانوں اورعیسائیوں نے مل کر اس شخص کی نفرت کی سیاست میں آگ لگادی، ہمنتا بسواسرما کو ایک زخم خوردہ شخص قراردیتے ہوئے مولانا مدنی نے کہا کہ وہ آسام کے لاکھوں مسلمانوں کی شہریت چھین لینے کے خواب دیکھ رہاتھا اوراس کے لئے فرقہ پرست 1951کی مردم شماری کوشہریت کی بنیادبنانے کا مطالبہ کررہے تھے، مگرجمعیۃعلماء ہند کی قانونی جدوجہد کے نتیجہ میں سپریم کورٹ کا جوفیصلہ آیا، اس نے ا س کے ناپاک ارادوں پرپانی پھیردیا، چنانچہ اب یہ لوگ اپنے زخم چاٹ رہے ہیں۔

مدارس اور بلڈوزر کارروائی کا مولانی مدنی نے کیا ذکر

آسام شہریت معاملہ کے ساتھ ساتھ مدارس اوربلڈوزرکارروائی سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلوں اوراس سلسلہ میں جمعیۃعلماء ہند کی مستقل قانونی جدوجہد کا ذکرکرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جمعیۃعلماء ہند بے بس اور کمزورطبقات ومظلوموں کے ساتھ ہرمصیبت کی گھڑی میں کھڑی رہی ہے اورایسا کرتے ہوئے اس نے کسی کا مذہب نہیں دیکھا، چند برس قبل کیرالامیں سیلاب سے ہونے والی زبردست تباہی کا ذکربھی انہوں نے کیا اورکہا کہ جمعیۃ علماء ہندنے وہاں متاثرین کو نئے گھربنا کردیئے ان میں مسلمانوں کے ساتھ ہندواورعیسائی بھی شامل تھے، اسی تناظرمیں انہوں نے کہا کہ ملک میں کروڑوں کی تعداد میں ایسے ہندوہیں، جو نفرت کی سیاست کے خلاف ہیں اورملک میں سیاست کے نام پرجوتخریبی کام ہورہا ہے، اس کووہ غلط سمجھتے ہیں۔ مولانا مدنی نے آخرمیں کہا کہ ہمارے مسائل بہت ہیں، لیکن وقف ترمیمی بل ایک اہم مسئلہ ہے، ہم اس بل کوپوری طرح مستردکرتے ہیں کیونکہ اس میں کوئی ایک بھی ترمیم ایسی نہیں ہے، جس پرگفتگوکی جائے۔ انہوں نے ایک بارپھربہاراور آندھرا پردیش کی حکومت کوباخبرکرتے ہوئے یہ کہا کہ وقف ہمارا مذہبی معاملہ ہے اوروہ اگرخود کوسیکولرکہتی ہیں تو انہیں اس پراپنا موقف صاف اورواضح کردینا چاہئے اوراگروہ اقتدارمیں بنے رہنے کے لئے اس کی حمایت کرتی ہیں تواس کا صاف مطلب ہوگا کہ انہوں نے مسلمانوں کی پیٹھ میں خنجرگھونپ دیا ہے۔ اخیر میں انہوں نے کہا کہ ملک میں سیکولرازم اورقانون کی بالادستی پریقین رکھنے والی سماجی اورسیاسی تنظیمیں اوردیگرادارے فرقہ پرست طاقتوں کے خلاف متحد ہوکران کے ناپاک عزائم کوناکام کردیں کیونکہ اگرملک میں دستوراورقانون کی حکمرانی نہیں ہوگی اورعدل وانصاف سے کام نہیں لیا جائے گا تو اس ملک کا شیرازہ منتشرہوجائے گا، جو اکثریت اوراقلیت دونوں کے لئے تباہ کن ہوگا۔

تحفظ اوقاف کے لئے جمعیۃ علماء ہند نے اٹھائی پٹنہ سے آواز

کانفرنس کا آغازقاری شمس الحق کی تلاوت کلام پاک اورمفتی سیدمعصوم ثاقب جنرل سکریٹری جمعیۃعلماء ہند کی نظامت سے ہوا۔ جمعیۃعلماء ہند کے نائب صدرمولانا اسجدمدنی نے کانفرنس کے اغراض ومقاصدپر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ جب تک دستورموجود ہے تو آپ کی حفاظت ہوتی رہے گی، مگرآج سب سے بڑا مسئلہ دستورکے تحفظ کا ہے، اسی کوذہن میں رکھتے ہوئے جمعیۃعلماء بہارنے آج اس تحفظ آئین ہند وقومی یکجہتی کانفرنس کا انعقاد کیا ہے۔ انہوں نے بلڈوزرمعاملہ میں جمعیۃعلماء ہند کی پٹیشن پرآئے سپریم کورٹ کے فیصلہ کا خیرمقدم کیا اوراپنی خوشی کا اظہاربھی کیا۔ جمعیۃعلماء اترپردیش کے صدرمولانا سید اشہد رشیدی نے اپنی مختصرتقریرمیں کہا کہ ملک کے حالات پریشان کن ضرورہیں، مگرمایوس کن نہیں ہیں، سید ازہرمدنی نے اپنی تقریرمیں کہا کہ اصلاح معاشرہ جمعیۃعلماء ہند کے بنیادی کاموں میں سے ایک ہے۔ قابل ذکرہے کہ کانفرنس میں بہت اہم پانچ تجاویزبھی پیش کی گئیں، جسے جمعیۃعلماء بہارکے عہدیداران مفتی نسیم، مفتی محمد خالد بیگو سرائے، مولانا محمد عباس، مولانا عبدالباسط اورمولانا حیدرالاسلام نے پیش کیا، خانقاہ مجیبہ کے سجادہ نشیں کے پیغام کوجمعیۃعلماء بہارکے ناظم مولانا مشہودندوی نے پڑھ کرسنایا،اجلاس میں شریک جم غفیرکا شکریہ صدر جمعیۃ علماء بہارمولانا بدراحمد مجیبی نے ادا کیا۔ خطبہ استقبالیہ ڈاکٹراشفاق کریم نے پیش کیا۔ پروگرام میں جمعیۃ علماء ہند کی ورکنگ کمیٹی کے متعدداراکین گرامی اورصوبائی جمعیۃعلماء کے صدراورجنرل سکریٹری صاحبان نے بھی شرکت کی۔

Also Read