Bharat Express

Entertainment News: ’’میں گنگا کا بیٹا ہوں، میں ہی لکھوں گا مہابھارت‘‘، اسکرپٹ لکھنے سے پہلے راہی معصوم رضا نے کیوں کہا تھا ایسا؟

راہی معصوم رضا کا طرز تحریر ہمیشہ مختلف تھا۔ ان کی لکھی ہوئی یہ شاعری ’’اس سفر میں نیند ایسی کھو گئی، ہم نہ سوئے رات تھک کر سو گئی‘‘، اس بات کو بخوبی بیان کرتی ہے۔ راہی معصوم رضا کا انتقال 15 مارچ 1992 کو ممبئی میں ہوا تھا۔ راہی کو ان کے کام کے لیے حکومت ہند نے پدم شری اور پدم بھوشن سے نوازا تھا۔

راہی معصوم رضا

نئی دہلی: ’’میں سمے ہوں… اور آج مہابھارت کی کتھا سنانے جا رہا ہوں‘‘۔ یہ الفاظ کون بھول سکتا ہے کہ 90 کی دہائی میں ہندوستان میں ایک بھی گھر ایسا نہیں ہوگا جس میں اتوار کے روز یہ آوازیں نہ سنی گئی ہوں۔ یہ افسانوی سیریل مصنف راہی معصوم رضا نے لکھا تھا۔ ان کی سیاہی میں لکھے ہر لفظ کا کرشمہ ایسا تھا کہ ’مہابھارت‘ لوگوں کے گھر پہنچ گئی۔ اس سے پہلے صرف لوگوں نے اس کے بارے میں پڑھا تھا۔

لیکن، کیا آپ جانتے ہیں کہ جن لوگوں نے ’مہابھارت‘ کو ملک کے گھر گھر پہنچانے کا کام کیا، انہوں نے اس کی کہانی اور مکالمے لکھنے سے انکار کر دیا تھا۔ جی ہاں، آپ نے اسے صحیح پڑھا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق فلم پروڈیوسر اور ڈائریکٹر بی آر چوپڑا نے سیریل ’مہابھارت‘ کی کہانی کے لیے راہی معصوم رضا سے رابطہ کیا تھا۔ لیکن، انہوں نے وقت کی کمی کا حوالہ دیتے ہوئے اسے مسترد کر دیا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ جب راہی معصوم رضا کو مہابھارت لکھنے کی پیشکش کی گئی۔ اس دوران ان کا شمار انڈسٹری کے مشہور ادیبوں میں ہوتا تھا۔ ان کی لگن کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ بیک وقت تین کہانیوں پر کام کرتے تھے۔ حالانکہ، مہابھارت کو مسترد کرنے کے بعد، بی آر چوپڑا کے گھر پر خطوط کا سیلاب آنے لگا۔ ان میں لکھا تھا کہ کیا مہابھارت لکھنے والے ہندو نہیں ہیں؟

حالانکہ، جب یہ خبر راہی معصوم رضا تک پہنچی تو ان کا پارہ چڑھ گیا اور انہوں نے فوراً بی آر چوپڑا سے مہابھارت کی کہانی لکھنے کو کہا۔ راہی معصوم رضا نے بی آر چوپڑا سے کہا تھا کہ میں مہابھارت لکھوں گا، کیونکہ میں ماں گنگا کا بیٹا ہوں۔ راہی نے بس ایسے ہی نہیں کہا۔ اس کے پیچھے ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے بتایا کہ ان کی تین مائیں ہیں، نفیسہ بیگم، علی گڑھ یونیورسٹی اور گنگا، جو گنگولی میں بہتی ہے۔

یکم ستمبر 1927 کو غازی پور کے گاؤں گنگولی میں پیدا ہونے والی راہی معصوم رضا کو لکھنے کا شوق تھا لیکن وہ ابتدائی دنوں سے ہی فلمی دنیا سے متاثر تھے۔ غازی پور سے علی گڑھ اور پھر علی گڑھ سے بمبئی (ممبئی) کا سفر کیا۔ کامیابی کی سیڑھی چڑھنے کے لیے انہیں طویل جدوجہد کرنی پڑی۔ حالانکہ، جب کامیابی نے دستک دی تو راہی رکنے والے نہیں تھے۔ انہوں نے 1979 میں فلم ’میں تلسی تیرے آنگن کی‘ کے لیے بہترین ڈائیلاگ کا فلم فیئر ایوارڈ جیتا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے ’ملی‘، ’قرض‘، ’لمہے‘ سمیت تقریباً 300 فلموں کے مکالمے اور کہانیاں لکھیں۔

فلموں سے اپنی محبت کے علاوہ انہوں نے ’چھوٹے آدمی کی بڑی کہانی‘ بھی لکھی تھی جو 1965 کی پاک بھارت جنگ میں شہید ہونے والے بہادر عبدالحمید کی سوانح حیات پر مبنی ہے۔ انہوں نے ’آدھا گاؤں‘، ’دل ایک سادا کاغذ‘، ’اوس کی بوند‘،’ہمت جونپوری‘ جیسے ناول بھی لکھے۔ انہوں نے اردو میں ایک مہاکاویہ بھی لکھا جو بعد میں ہندی میں ’کرانتی کتھا‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس کے علاوہ ان کے دوسرے ناول جیسے ’ٹوپی شکلا‘، ’کٹرہ بی آرزو‘، ’محبت کے سیوا‘، ’اسنتوش کے دن‘، ’نیم کا پیڈ‘ انہیں شہرت کی بلندیوں پر لے گئے۔

راہی معصوم رضا کا طرز تحریر ہمیشہ مختلف تھا۔ ان کی لکھی ہوئی یہ شاعری ’’اس سفر میں نیند ایسی کھو گئی، ہم نہ سوئے رات تھک کر سو گئی‘‘، اس بات کو بخوبی بیان کرتی ہے۔ راہی معصوم رضا کا انتقال 15 مارچ 1992 کو ممبئی میں ہوا تھا۔ راہی کو ان کے کام کے لیے حکومت ہند نے پدم شری اور پدم بھوشن سے نوازا تھا۔

بھارت ایکسپریس۔

Also Read