Bharat Express

Supreme Court

این سی پی سربراہ شرد پوار نے ایک پریس کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ’’خاتون پرجوکچھ گزرا ہے اوراس کی فیملی کے 7 اراکین کا قتل کیا گیا ہے... اسے دیکھتے ہوئے مجھے لگتا ہے کہ مہاراشٹرحکومت اس معاملے کوسنجیدگی سے لےگی۔‘‘

مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند لاتعداد مقدمات لڑرہی ہے اور اس تجربات کی بنیاد پرہی ہم یہ بات کہتے ہیں کہ اب عدالتیں ہی انصاف کا واحد سہارا رہ گئی ہیں، جہاں سے مظلوموں کو انصاف مل سکتا ہے۔

بلقیس بانو نے کہا کہ ڈیڑھ سال پہلے 15 اگست 2022 کو جب میرے خاندان کو تباہ کرنے اور میرے وجود کو دہشت زدہ کرنے والوں کو جلد رہائی مل گئی تو میں پست ہوگئی۔ مجھے لگا کہ میرا حوصلہ ختم ہو گیا ہے۔

ممبئی کی خصوصی سی بی آئی کورٹ نے 21 جنوری 2008 کو11 افراد کوعمرقید کی سزا دی۔ سال 2017 میں بامبے ہائی کورٹ اوربعد میں سپریم کورٹ نے بھی سزا کوبرقراررکھا۔

انہیں ڈر تھا کہ اگر فیصلہ ان کے خلاف ہوگا تو شرپسند اس کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں نقصان پہنچانے کی کوشش کرسکتے ہیں ۔ اس خطرہ کو دیکھتے ہوئے سپریم کورٹ سے فیصلہ آنے سے چند دن پہلے انہوں نے اپنا آبائی گھر چھوڑ دیا تھا۔

راہل گاندھی نے کہا کہ آج سپریم کورٹ کے فیصلے نے ایک بارپھر ملک کو بتا دیا کہ 'مجرموں کا سرپرست' کون ہے۔ بلقیس بانو کی بے پناہ جدوجہد مغروربی جے پی حکومت کے خلاف انصاف کی جیت کی علامت ہے۔

بلقیس بانو کے قصورواروں کی رہائی سے متعلق سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ آیا ہے۔ اس پراپوزیشن کی طرف سے ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ کانگریس لیڈر پرینکا گاندھی نے اسے انصاف کی جیت قرار دیا ہے جبکہ اسدالدین اویسی نے حکومت سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے۔

سپریم کورٹ 2002 میں گودھرا واقعہ کے بعد گجرات میں فسادات کے دوران بلقیس بانو کی عصمت دری اور ان کے خاندان کے 7 افراد کے قتل کے معاملے میں قصورواروں کی بریت کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پرسپریم کورٹ کا فیصلہ آچکا ہے۔ سپریم کورٹ کی کاز لسٹ کے مطابق جسٹس بی وی ناگرتھنا اور جسٹس اجل بھوئیاں کی بنچ  نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ مجرموں کی رہائی درست نہیں ہے۔

رہائی پانے والوں میں جسونت نائی، گووند نائی، شیلیش بھٹ، رادھیشام شاہ، بپن چندر جوشی، کیسر بھائی ووہانیہ، پردیپ مورداہیا، بکا بھائی ووہانیہ، راجو بھائی سونی، متیش بھٹ اور رمیش چندنا شامل ہیں۔ 15 سال جیل میں گزارنے کے بعد، قید کے دوران ان کی عمر اور رویے کو مدنظر رکھتے ہوئے، انہیں 15 اگست 2022 کو رہا کر دیا گیاتھا ۔

جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس دیپانکر دتہ کی بینچ گزشتہ اکتوبر میں الہ آباد ہائی کورٹ کے ذریعہ مفاد عامہ کی عرضی خارج کرنے کے بعد ایڈوکیٹ مہک مہیشوری کے ذریعہ داخل خصوصی اجازت والی عرضی پر سماعت ہو رہی تھی۔