Bharat Express

NCPCR

جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا ارشدمدنی نے سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کا استقبال کیا اوریہ امید ظاہرکی کہ حتمی فیصلہ بھی مدارس کے حق میں آئے گا اورآئین کے احکامات کی صریحاً خلاف ورزی کرنے والی طاقتوں کومنہ کی کھانی پڑے گی۔

سید تنویر احمد نے کہا کہ ’ این سی پی سی آر‘ نے سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے تحت مدرسہ بورڈز کو بند کرنے کی سفارش کی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس سفارش کے پیچھے سیاسی منشا کارفرما ہے۔

حافظ محمد خالد نے کہا کہ اگر کسی مدرسے کے استاد یا اسکول کے کسی استاد نے غلطی کی ہے تو اس کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے۔ لیکن ایک دو واقعات کی بنیاد پر پورے مدارس یا اسکولوں کو بند نہیں کیا جا سکتا۔ جہاں غلطی ہو وہاں اصلاح ہونی چاہیے۔

این سی پی سی آرنے یہ بھی سفارش کی ہے کہ سبھی غیرمسلم بچوں کو مدارس سے نکال کر اسکولوں میں داخل کرایا جائے۔ اس کے ساتھ ہی مسلم طبقے کے بچے جو مدارس میں پڑھ رہے ہیں، وہ منظورشدہ ہوں یا غیرمنظور شدہ ، ان کا داخلہ باضابطہ اسکولوں میں کرایا جائے۔

سپریم کورٹ میں داخل دلیلوں میں کمیشن نے دارالعلوم دیوبند کی ویب سائٹ پرموجود کئی مواد کو قابل اعتراض بتایا ہے۔ این سی پی سی آرکا دعویٰ ہے کہ نابالغ لڑکی کے ساتھ جسمانی تعلقات بنانے سے متعلق فتویٰ دیا گیا ہے، جونہ صرف خوفناک ہے بلکہ پاکسوایکٹ کے التزام کی خلاف ورزی ہے۔

این سی پی سی آر کے چیئرمین پریانک کانونگو نے این آئی اوایس کو خط  لکھ جمعیۃ علماء ہند کے تعلیمی ادارہ ’جمعیۃ اوپن اسکول‘ کی مہم کو’منظم جرم‘ سے تعبیرکیا تھا۔ نیز اس پر بیرون ملک سے  فنڈ حاصل کرنے بالخصوص پاکستان سے تعلق ہونے کا بے بنیاد الزام عائدکیا تھا۔

مدرسے کے عہدیداران کا کہنا ہے کہ این سی پی سی آرکا مینڈیٹ بچوں کی حفاظت کرنا ہے، نہ کہ ڈرانا یا تشدد کا سہارا لینا۔

این سی پی سی آر نے این آئی او ایس کو ایسے کورسز کو بند کرنے کا مشورہ دیا ہے اور ان طلباء سے کہا ہے کہ وہ اسکول میں باقاعدہ اسکولنگ کے لیے داخلہ لیں۔ این سی پی سی آر نےرائٹ ٹوایجوکیشن ایکٹ کا حوالہ دیا اور دلیل دی کہ کلاس 3، 5 اور 8 کے لیے اوپن اسکولنگ کی پیشکش ایکٹ کی خلاف ورزی ہے۔