عبادت گاہوں سے متعلق جمعیۃ علماء ہند کی عرضی پر خصوصی بینچ 12 دسمبر کو سماعت کرے گی۔
نئی دہلی: جمعیۃ علماء ہند کی قانونی جدوجہد کی تاریخ میں آج ایک اورکامیابی کا باب جڑگیا، جب چیف جسٹس وی آئی چندرچورکی سربراہی میں جسٹس جے پی پاردی والا اورجسٹس منوج مشراپرمشتمل ایک بینچ نے ان تمام نوٹسوں پرروک لگا دی، جومختلف ریاستوں خاص طورپراترپردیش حکومت کے ذریعہ مدارس کو جاری کئے گئے تھے اوراس میں کہا گیا کہ عدالت کی طرف سے مزید نوٹس جاری کئے جانے تک کی مدت کے دوران اس تعلق سے اگرکوئی نوٹس یا حکم نامہ مرکزیاریاست کی طرف سے جاری ہوتاہے تواس پر بھی بدستورروک جاری رہے گی، اس کے ساتھ ساتھ عدالت نے مرکزاورریاستوں سے چارہفتے کے اندراپنا موقف پیش کرنے کوکہا ہے، عدالت نے بچوں کے حقوق سے متعلق قومی کمیشن (این سی پی سی آر) کی اس سفارش پربھی روک لگادی، جس نے اس میں مرکزاور ریاستوں سے کہا ہے کہ مبینہ طورپرحق تعلیم ایکٹ سے مطابقت نہیں رکھنے والے تمام مدارس بند کرا دیئے جائیں۔
مدارس میں بچوں کی تعلیم سے متعلق این سی پی آرنے کیا تھا بڑا دعویٰ
قابل ذکرہے کہ اس معاملہ میں بچوں کے حقوق سے متعلق قومی کمیشن نے عدالت میں ایک حلف نامہ بھی داخل کیا تھا، جس میں مبینہ طورپراس نے یہ بھی کہا تھا کہ مدارس میں بچوں کومناسب تعلیم نہیں دی جارہی ہے اوریہ بچوں کے بنیادی حقوق کے منافی ہے، آگے یہ بھی کہا گیا تھا کہ مدارس میں بچوں کونہ صرف مناسب تعلیم بلکہ صحتمند ماحول اورنشوونما کے بہترمواقع سے بھی محروم رکھا جارہا ہے۔ واضح ہوکہ اترپردیش میں مدارس کوجونوٹس جاری کئے گئے ان میں حقائق کو سراسرنظراندازکرتے ہوئے دلیل دی گئی کہ مفت اورلازمی تعلیم برائے حق اطفال ایکٹ 2009 کے تحت اگرمدرسہ غیرتسلیم شدہ ہے تواسے بند کیا جائے اورطلبا کوقریب ترین پریشدودیالیہ میں منتقل کردیا جائے، اس طرح کے نوٹس کے بعد ہی حکومتی کارندوں نے اترپردیش میں بڑے پیمانہ پرمدارس کے خلاف کارروائی شروع کردی یہاں تک کہ بہت سے مدارس کو جبراً بند کروادیا گیا۔ جمعیۃعلماء ہند نے اس سازش کو ناکام بنانے کے لئے مولانا ارشدمدنی کی ہدایت پر ایک اہم پٹیشن جس کا W.P.(C)No, 000660/2024ہے، 4اکتوبر 2024کو داخل کی تھی جس میں ان تمام دعوؤں کو چیلنج کیا گیا تھا، جس میں وکیل آن ریکارڈ فضیل ایوبی ہیں جبکہ سینئرایڈوکیٹ اندراجے سنگھ اس مقدمہ کی پیروی کررہی ہیں، اس پٹیشن پرعدالت نے متعلقہ فریقین سے وضاحت طلب کی تھی اورآج چیف جسٹس کی سربراہی والی بینچ نے مدارس کے خلاف جاری تمام نوٹسوں اورکارروائی پرروک لگاتے ہوئے مرکزاورریاست کواپنا موقف پیش کرنے کے لئے چارہفتہ کی مہلت دی ہے، آج سماعت کے دوران سینئرایڈوکیٹ اندراجے سنگھ کے علاوہ کوئی اوروکیل عدالت میں پیش نہیں ہوا۔
مولانا ارشد مدنی نے کیا اطمینان کا اظہار
جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا ارشدمدنی نے سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کا استقبال کیا اوریہ امید ظاہرکی کہ حتمی فیصلہ بھی مدارس کے حق میں آئے گا اورآئین کے احکامات کی صریحاً خلاف ورزی کرنے والی طاقتوں کومنہ کی کھانی پڑے گی۔ انہوں نے اس بات پرافسوس کا اظہارکیا کہ آئین میں ملک کی اقلیتوں کوجو خصوصی اختیارات دیئے گئے ہیں، اب انہیں چھین لینے کی طرح طرح کی سازشیں ہورہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئین کی دفعہ 30 (1) کے تحت تمام اقلیتی تعلیمی اداروں کوجہاں تحفظ دیا گیا ہے۔ وہیں دفعہ 25 کے تحت ضمیرکی آزادی اوردفعہ 26 کے تحت اقلیتوں کواپنی مذہبی تعلیمی اداروں کے انتظام وانصرام کی مکمل آزادی دی گئی ہے، سپریم کورٹ بھی متواتریہ تبصرہ کرتی رہی ہے کہ ان دفعات کے تحت اقلیتوں کوجواختیارات دیئے گئے ہیں، ان میں کسی طرح کی مداخلت نہیں کی جاسکتی۔
مدارس کے خلاف ہو رہی ہے سازش: مولانا ارشد مدنی
مولانا ارشد مدنی نے 2014میں سپریم کورٹ کی پانچ رکنی بینچ کے ان فیصلہ کا بھی حوالہ دیا، جس میں کہا گیا ہے کہ حق تعلیم ایکٹ 2009 کا اطلاق ان تعلیمی اداروں پرنہیں ہوگا، جواقلیتوں کے ذریعہ چلائے جارہے ہیں۔ انہوں نے مدارس کے خلاف ہونے والی سازش کا پردہ چاک کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ مدارس کے خلاف یہ سب کررہے ہیں، وہ مدارس کے ماحول اورکردارسے نابلد ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جس حق تعلیم ایکٹ کوذریعہ بناکرمدارس کو بند اورختم کرنے کی سازش ہورہی ہے، اس کی دفعہ 1(5) میں کہا گیا ہے کہ ایکٹ کی کوئی شق مدارس، پاٹ شالہ اوراس طرح کے دیگرتعلیمی اداروں پرنافذ نہیں ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ جمعیۃعلماء ہند کا تعلق مدارس اسلامیہ سے ہے، ہمارے سارے اکابریہی سے پڑھ کرباہرنکلے درحقیقت جمعیۃ علماء ہند مدارس اسلامیہ کی آوازاوران کا ذہن ہے۔ فرقہ پرست طاقتیں اس تاریخ سے بھی نابلد ہیں کہ یہ مدارس ہی ہیں کہ جب پوری قوم سورہی تھی توانہوں نے ملک کوغلامی سے آزادکرانے کا صورپھونکا۔
سپریم کورٹ گئی تھی جمعیۃ علماء ہند
انہوں نے مزید کہا کہ اس سازش کوناکام کرنے اورآئین کوبچانے کے لئے ہی ہم نے سپریم کورٹ کا رخ کیا تھا، اس لئے کہ اگریہ سازش کامیاب ہوجاتے ہیں توپھر آئین کا بھی کوئی جوازنہیں رہ گیا، اس کی حیثیت بیکاراوربے فیض کتاب جیسی ہوکررہ جائے گی، ہم ایک بارپھرفرقہ پرست طاقتوں کو یہ باورکرادینا چاہتے ہیں کہ ملک کے آئین اورقانون کے دائرہ میں ہی مدارس اسلامیہ اپنا کام کررہے ہیں اورانہی کی وجہ سے ملک میں اسلام کی نشوونما بھی ہو رہی ہے، یہی نہیں مدارس کے فضلاء دنیا بھرمیں جہاں کہیں جاتے ہیں اپنے کرداراورکام سے ملک کانام روشن کرتے ہیں، مگرافسوس مدارس کے تعلق سے فرقہ پرست ذہنیت کی جو پالیسی ہے وہ مسلمانوں کو طرح طرح کے مسائل سے دوچارکرہی ہے۔ جمعیۃعلماء ہند اپنے آئینی اورقانونی حق کا استعمال کرتے ہوئے عدالت گئی، الحمدللہ اس کا بہترنتیجہ سامنے آیا اورمدارس کے خلاف ہونے والی ریشہ دوانیوں پرروک لگ گئی بلکہ ہم تویہ کہیں گے کہ ہندوستان کے آئین اوردستورکے خلاف جو لوگ کام کررہے تھے ان کی منشا اورارادے پرروک لگی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ملک کے آئین کے تحفظ کے لئے لڑرہے ہیں اس لئے کہ آئین بچے گا توہی یہ ملک بچے گا اپنے اس وژن کی تکمیل کے لئے جمعیۃعلماء ہند آئندہ 3 نومبرکونئی دہلی میں ایک عظیم الشان آئین ہند تحفظ کانفرنس بھی منعقد کررہی ہے۔
بھارت ایکسپریس۔