جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود مدنی۔ (فائل فوٹو)
نئی دہلی: نیشنل کمیشن فارپروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس (این سی پی سی آر) کے چیئرمین پریانک کانونگوکے ذریعہ دینی مدارس اورجمعیۃ اوپن اسکول کو بدنام کرنے کے خلاف جمعیۃ علماء ہند نے سخت قدم اٹھایا ہے۔ اس سلسلے میں جمعیۃ علماء ہند کے صدرمولانا محمود اسعد مدنی کی طرف سے معروف وکیل ورندا گرورنے مذکورہ چیئرمین کو خط لکھ کر7 دنوں کے اندرتحریری طورپراپنا بیان واپس لینے کا مشورہ دیا ہے، ورنہ ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔
واضح رہے کہ 13مارچ کو پریانک کانونگو نے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوپن اسکول (این آئی اوایس) کو خط لکھ جمعیۃ علماء ہند کے تعلیمی ادارہ ’جمعیۃ اوپن اسکول‘ کی مہم کو’منظم جرم‘ سے تعبیرکیا تھا، نیزاس پر بیرون ملک سے فنڈ حاصل کرنے بالخصوص پاکستان سے تعلق ہونے کا بے بنیاد الزام عائد کیا تھا۔ اس سلسلے میں چیئرمین نے ایک ٹی وی چینل پربھی اس الزام کا اعادہ کیا۔ اس کے علاوہ مذکوہ چیئرمین دینی مدارس کو بدنام کرنے اوران کے خلاف بے ہودہ الزامات عائد کرنے میں بھی پیش پیش رہتے ہیں۔
نوٹس میں واضح طورپرکہا گیا ہے کہ جمعیۃ علماء ہند جیسی تاریخی اوروطن پرورجماعت کو بدنام کرنے اوراس پرجھوٹے الزامات عائد کرنے کی کوشش کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہے۔ نیزاتنے بڑے عہدے پربیٹھے شخص کے لئے یہ زیبا بھی نہیں ہے۔ جمعیۃ علماء ہند کے صدرنے اس نوٹس کے ذریعہ لگائے گئے بے بنیاد الزامات کی تردید کی ہے۔ مختلف میڈیا چینلزکے ذریعے پھیلائے گئے ان الزامات نے جمعیۃ اوپن اسکول کی ساکھ کومتاثرکیا ہے، جبکہ یہ ادارہ پسماندہ طبقات خاص طور پرمسلم اقلیت کی تعلیمی ضروریات کی تکمیل کے لئے وقف ہے۔
پریانک کانونگو کے دعووں کے برعکس، جمعیۃ اوپن اسکول، قانونی فریم ورک کے اندرکام کرتا ہے اور اس کا مقصد بنیادی طور پر دینی مدارس کے طلبہ کو نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوپن اسکولنگ (این آئی او ایس) کے ذریعہ رسمی تعلیم کے مواقع فراہم کرنا ہے۔ اس اقدام کا مقصد ایسے طلبہ کو بااختیاربنانا ہے، جومرکزی دھارے کے تعلیمی مواقع سے محروم ہیں تاکہ وہ سول سوسائٹی کے دھارے میں شامل ہوسکیں۔ دوسری طرف جمعیۃ کسی بھی طالب علم کورسمی تعلیم حاصل کرنے سے نہیں روکتی بلکہ غیررسمی تعلیم کے ساتھ بچوں کے لئے رسمی تعلیم کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ این سی پی سی چیئرمین جمعیۃ اوپن اسکول کواوپن ’مدرسہ‘ کا جونام دے رہے ہیں، وہ نہ صرف غلط ہے بلکہ بدنیتی پرمبنی ہے۔ نیزدینی مدارس کے بارے میں ان کے تضحیک آمیزتبصرے، ان اداروں کی آئینی شناخت اورحقوق کونقصان پہنچا رہے ہیں۔ ان کو سمجھنا چاہئے کہ ملک کی قانونی اسکیم میں ’دینی مدارس‘ کو تسلیم کیا گیا ہے۔ لازمی تعلیم کا حق ایکٹ، 2009 کے 1(5) میں خاص طورپرکہا گیا ہے کہ یہ ایکٹ مدارس، ویدک پاٹھ شالوں اور بنیادی طورپرمذہبی تعلیم دینے والے دیگراداروں پرلاگو نہیں ہوگا۔ اس طرح مدارس کے جوازکو ملک کے آئین کی دفعہ 29 اور30 میں بھی قانونی طورپرتسلیم کیا گیا ہے۔ نیزریاستی سطح کے مختلف قوانین ہیں جو مذہبی تعلیم کے ان اداروں کو تسلیم کرتے ہیں۔
مزید برآں قانونی طور پرمقررکردہ چیئرپرسن ہونے کی وجہ سے، ”بچوں کے خلاف منظم جرائم“ جیسے جملے کا انتخاب بہت ہی افسوسناک اورجمعیۃ علماء ہند کو بدنام کرنے والا عمل ہے۔ مذہبی تعلیم دینا اقلیتوں کا بنیادی حق ہے، دیگرمذاہب کی طرف سے بھی مذہبی تعلیم دی جاتی ہےاورادارے قائم کئے جاتے ہیں، لیکن انھوں نے صرف دینی مدارس کو نشانہ بنا کرعصبیت کا ثبوت دیا ہے۔
جہاں تک مالی معاملات کا تعلق ہے، توچیئرمین نے فنڈزاکٹھے کرنے کوپاکستان سے وابستہ کیا ہے۔ ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ جمعیۃ علماء ہند کسی بھی غیرملکی تعاون کے لئے فارن کنٹری بیوشن ریگولیشن ایکٹ، 2010 پرسختی سے عمل پیرا ہے اوراس مقصد کے لئے اس کے پاس وزارت داخلہ کے ذریعہ تجدید شدہ ایف سی آراے سرٹیفکیٹ ہے۔ یہ کہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ کسی رقم کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایف سی آراے قانون کا معاملہ این سی پی سی آر کے دائرہ اختیارسے باہرہے، اس کے باوجود انہوں نے پاکستان کا نام لے کراپنی حدوں کو پارکیا ہے، ان کی باتوں کی جڑیں جھوٹ، قیاس اورناقابل یقین دعووں پرمبنی ہیں۔ جمعیۃ علماء ہند نے میڈیا کوبھی متوجہ کیا ہے کہ وہ ایسے جھوٹے بیانات کو جاری کرنے سے گریزکرے، جومعاشرے کی بہتری کے لئے کام کرنے والی تنظیموں کوبدنام کرنے کا سبب ہیں۔
بھارت ایکسپریس۔