Bharat Express

Bittu Bajrangi

بٹو بجرنگی جس سیٹ سے الیکشن لڑ رہا ہے، وہاں سے کانگریس نے موجودہ رکن اسمبلی نیرج شرما کو ٹکٹ دیا ہے۔ نیرج شرما کے والد پنڈت شیوچرن لال شرما بھی اس سیٹ سے 2009 میں آزاد رکن اسمبلی منتخب ہوئے تھے اوربعد میں بھوپیندرسنگھ ہڈا کی حکومت میں وزیربنے تھے۔

پولیس افسر نے بتایا کہ یہ ویڈیو یکم اپریل کی ہے اور جس شخص کو پیٹا جا رہا ہے وہ فرید آباد کے سرور پور کا رہنے والا ہے۔ شمو نامی شخص پر الزام تھا کہ اس نے اپنے محلے کی دو لڑکیوں کو چاکلیٹ دے کر اپنے گھر بلایا اور مقامی لوگوں کو شک تھا کہ وہ ان کا جنسی استحصال کرنا چاہتا ہے۔

فریدآباد کے گئورکشک بٹو بجرنگی کے بھائی کی علاج کے دوران موت ہوگئی ہے۔ بٹو کے بھائی نے دعویٰ کیا تھا کہ کچھ لوگوں نے جلنے والی چیز ڈال کر اس کو آگ لگا دی تھی، جس کے بعد اسے اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ وہیں پولیس نے اس معاملے کی جانچ کے لئے ایس آئی ٹی کی تشکیل کی تھی۔

بٹو بجرنگی اور مہیش کی بیوی اسے بی کے ہسپتال لے گئی، جہاں سے اسے ریفر کر دیا گیا۔ فی الحال مہیش کا ایک پرائیویٹ اسپتال میں علاج چل رہا ہے

جیل میں بند نوح تشدد کے ملزم بٹو بجرنگی عرف راج کمار کو ضمانت مل گئی ہے۔ اسے 15 اگست کی شام فرید آباد سے گرفتار کیا گیا تھا۔ الزام ہے کہ بٹو بجرنگی نے نوح میں برجمنڈل یاترا کے دوران سوشل میڈیا پر کئی اشتعال انگیز پوسٹ کی تھیں۔

اے ڈی جی پی ممتا سنگھ کا کہنا ہے کہ بٹو بجرنگی کی گرفتاری تشدد پھیلانے یا فساد پھیلانے کے الزام میں نہیں ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مونو مانیسر کا بیان اشتعال انگیز نہیں ہے۔

ہریانہ کے نوح تشدد کا ملزم اورمسلمانوں کو مشتعل کرنےوالا بٹو بجرنگی پولیس حراست میں بھیج دیا گیا ہے۔ اس پرالزام ہے کہ اس نے نوح تشدد سے پہلے خواتین پولیس اہلکاروں سے بھی بدتمیزی کی تھی۔

ہریانہ کے نوح تشدد کے بعد بٹو بجرنگی کو پولیس نے گرفتار کرلیا ہے۔ اس کے بعد وشوہندو پریشد نے ٹوئٹ کرکے بتایا ہے کہ بجرنگ دل سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ جانئے آخرکون ہے یہ بٹو بجرنگی۔

بٹو بجرنگی کے خلاف صدر تھانہ نوح میں مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ اے ایس پی اوشا کنڈو کی شکایت پر بٹو بجرنگی کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ بتا دیں کہ نوح تشدد کے معاملے میں بٹو بجرنگی پر یہ دفعہ 148,149,332,353,186,395,397,506,25,54,59 لگائی گئی ہیں۔

جو کچھ نوح میں ہوا اسے کسی طرف سے اچھا نہیں کہا جائے گا۔ اس کی وجہ سے دونوں فرقوں کے ذہنوں میں ایک دوسرے کے تئیں جو شک پیدا ہوا ہے وہ خطرناک ہے۔کیونکہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی تشدد میں بدلنے کی ماضی کی کوئی تاریخ نہیں ہے۔