Bharat Express

Aligarh muslim university

اے ایم یو میں، غیر ملکی طلباء گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کے مقابلے پی ایچ ڈی کی طرف زیادہ مائل ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے میدان میں اے ایم یو اب بھی ایک پرکشش آپشن ہے۔ فی الحال اے ایم یو میں 26 ممالک کے 170 غیر ملکی طلباء زیر تعلیم ہیں۔

مختلف سرکردہ قائدین ملت نے بہ یک زبان فیصلے پر اظہار مسرت کے ساتھ تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ایک ایسا پائیدار اور تاریخ ساز فیصلہ ہے، جس سے مسلم مدارس اور مسلم اقلیت کی لاچارگی کو مدت دراز تک تقویت فراہمی کے علاوہ اداروں کی آئینی سیرابی کا سلسلہ برقرار رہے گا۔

سید سعادت اللہ نے کہا، "ہمیں امید ہے کہ حکومتیں اور مقامی حکام یہ سمجھیں گے کہ اقلیتیں، خاص طور پر مسلمان، ہندوستان کا ایک لازمی حصہ ہیں، اور تعلیم، معاش، تحفظ اور سلامتی کے حوالے سے ان کے بنیادی حقوق کا تحفظ کیا جانا چاہیے۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو اقلیتی درجہ دینے کے معاملے میں 7 ججوں کی بنچ کا فیصلہ آیا ہے۔ حالانکہ، یہ فیصلہ متفقہ طور پر نہیں بلکہ 4:3 کے تناسب سے کیا گیا۔ سی جے آئی، جسٹس کھنہ، جسٹس پاردی والا اور جسٹس منوج مشرا نے متفقہ طور پر فیصلے کے حق میں فیصلہ دیا۔ جبکہ جسٹس سوریہ کانت، جسٹس دیپانکر دتہ اور جسٹس ایس سی شرما کا فیصلہ مختلف رہا۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ چاہے کوئی تعلیمی ادارہ آئین کے نفاذ سے پہلے قائم ہو یا بعد میں، اس سے اس کا درجہ نہیں بدل جائے گا۔ ادارے کے قیام اور اس کے سرکاری مشینری کا حصہ بننے میں فرق ہے۔ آرٹیکل 30 (1) کا مقصد یہ ہے کہ اقلیتوں کے ذریعہ بنائے گئے ادارے کو صرف ان کے ذریعہ چلایا جائے۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اس ساہتیہ اتسو کا تیسرا ایڈیشن ایک شاندار کامیابی تھا، چونکہ یونیورسٹی کے پروفیسروں اور طلباء نے اس کی جم کرتعریف کی۔ تقریب میں مقررین نے یونیورسٹی کے طلباء کی مثبت تحریکوں کی حمایت کا اظہاربھی کیا۔

سپریم کورٹ کے وکیل اوراے ایم یو طلبہ یونین کے سابق صدرایڈوکیٹ زیڈ کے فیضان نے آج یہاں ایک بیان جاری کرکے مسلم یونیورسٹی طلباء یونین کے انتخابات فوری طورپرکرانے کا مطالبہ کیا ہے۔

نیشنل انسٹی ٹیوشنل رینکنگ فریم ورک 2024 جاری کی گئی ہے۔ اس بارہائرایجوکیشن کٹیگری میں انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس، بنگلوروسرفہرست ہے۔

ماہرین  کا کہنا ہے کہ پروفیسر نعیمہ ان تمام خصوصیات  کی حامل ہیں جن کو موجودہ حکومت بااثر مسلم شخصیات میں  تلاش کرتی ہے اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کی سابق وائس چانسلر نجمہ اختر کی کامیابی کی کہانی اس کی مثال ہے۔

طالبات نے راہل سے سیاست میں خواتین کی شمولیت سے متعلق سوالات بھی پوچھے۔ اس پر راہل نے کہا، سیاست اور کاروبار میں خواتین کی پوری نمائندگی نہیں ہے۔ اس کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو خواتین امیدواروں کو موقع دینے کے بارے میں سوچنا ہو گا۔ راہل نے کہا کہ  ہم نے مقامی سطح پر سیاست میں خواتین کی موجودگی دیکھی ہے۔