Bharat Express

Aligarh muslim university

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار سے متعلق سپریم کورٹ میں سماعت کر رہی آئینی بینچ کے سامنے مرکزی حکومت نے کہا ہے کہ اے ایم یو ایک 'قومی نوعیت' کا ادارہ ہے، اس کو اقلیتی ادارہ نہیں مانا جاسکتا ہے۔

شارق ادیب نے الزام لگایا کہ ان 15 فیصد مسلمانوں نے پسماندہ برادری کو کسی بھی کمیٹی کا حصہ بننے سے روک رکھا ہے۔ ان کا الزام ہے کہ مسلمانوں کی اعلیٰ  ذاتوں جیسے سید، شیخ، پٹھان وغیرہ نے یونیورسٹی کی ایگزیکٹو کونسل اور کورٹ ممبران میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور ان سب نے ہمیشہ پسماندہ برادری کے خلاف اپنا ووٹ ڈالا ہے۔

اپنے قیام کے بعد سے، یونیورسٹی کو خواتین کے لیے ایک قدامت پسند مقام کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے جس کے بانی سر سید احمد خان خواتین کے لیے پردہ پر مبنی گھریلو تعلیم کی وکالت کرتے رہے ہیں۔ تاہم، سالوں کے دوران پیشہ ورانہ اور پوسٹ گریجویٹ کورسز میں مخلوط تعلیم کے ساتھ نقطہ نظر آہستہ آہستہ بدل گیا۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں نئے وائس چانسلر کیلئے طلبا اور اساتذہ دونوں سراپا احتجاج ہیں ،انتظامیہ کی جانب سے سست روی کی وجہ سے اے ایم یو کے نئے وی سی کی تقرری کا عمل مکمل نہیں ہوپایا ہے ۔البتہ اب مظاہرین کیلئے اچھی خبر آگئی ہے چونکہ حکام نے وائس چانسلر کی تقرری کا عمل شروع کر دیا ہے۔

آج  یعنی 17 اکتوبر کو پوری دنیا میں جہاں جہاں علیگ برادری کے لوگ موجود ہیں ، بڑے جوش وخروش کے ساتھ سرسیداحمد خاں کا یوم پیدائش منا رہے ہیں۔ ‘سرسید ڈے ’ کی اہمیت ان لوگوں کے لیے سب سے زیادہ ہے جنھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی یا پھر سرسید کی تعلیمی تحریک سے وابستہ ہیں۔

اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جاری جنگ کے بعد ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی نے اسرائیل کی حمایت کی ہے لیکن دوسری جانب علی گڑھ کی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلباء نے فلسطین کی حمایت میں مظاہرہ کیا ہے۔

اس لڑائی میں ہومیوپیتھک ڈاکٹر سمیت تین افراد کو گولیاں لگیں۔ سبھی میڈیکل کالج میں زیر علاج ہیں۔حالانکہ فائرنگ کی اطلاع ملتے ہی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پراکٹر پروفیسر وسیم احمد، پروکٹوریل ٹیم اور سول لائنز پولیس موقع پر پہنچ گئی تھی۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں طلبہ لیڈرفرحان زبیری کی گرفتاری کے بعد مظاہرین طلبا نےیونیورسٹی کے گیٹ کو بند کردیا۔ فرحان زبیری کو تشدد کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔

اردو کے مایہ ناز ادیب، محقق، افسانہ نگار، خاکہ نگار، انشیائیہ پرداز، شاعر، مضمون نگار اور دو درجن کتابوں کے مصنف پروفیسرابن کنول کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کیمپس واقع قبرستان جمال پورمیں نم آنکھوں سے سپرد خاک کردیا گیا۔

جب یہ مذہبی نعرے لگائے گئے تو یونیورسٹی کے وی سی طارق منصور بھی وہاں موجود تھے۔ سوشل میڈیا پر یہ معاملہ وائرل ہونے کے بعد اس معاملے نے متنازع شکل اخیتار  کرلی ہے