Bharat Express

Sir Syed Day 2023: جوش وخروش کے ساتھ پوری دنیا میں علیگ برادری منارہے ہیں ’سرسید ڈے‘ اے ایم یو میں جشن کا ماحول

آج  یعنی 17 اکتوبر کو پوری دنیا میں جہاں جہاں علیگ برادری کے لوگ موجود ہیں ، بڑے جوش وخروش کے ساتھ سرسیداحمد خاں کا یوم پیدائش منا رہے ہیں۔ ‘سرسید ڈے ’ کی اہمیت ان لوگوں کے لیے سب سے زیادہ ہے جنھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی یا پھر سرسید کی تعلیمی تحریک سے وابستہ ہیں۔

آج  یعنی 17 اکتوبر کو پوری دنیا میں جہاں جہاں علیگ برادری کے لوگ موجود ہیں ، بڑے جوش وخروش کے ساتھ سرسیداحمد خاں کا یوم پیدائش منا رہے ہیں۔ ‘سرسید ڈے ’ کی اہمیت ان لوگوں کے لیے سب سے زیادہ ہے جنھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی یا پھر سرسید کی تعلیمی تحریک سے وابستہ ہیں۔ یادرہے کہ سر سید احمد خاں کی پیدائش کو 200 سال سے زیادہ ہو چکے ہیں اور 2020 کے سر سید ڈے پر ہم انکی 203 ویں سالگرہ کا جشن منا رہے ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو بھی 100 سال مکمل ہو گئے ہیں۔ یونیورسٹی کا درجہ حاصل ہونے کی 100 سالہ تاریخ پر تو متعدد مضامین چھپتے ہیں اورجلسوں میں گفتگو بھی ہوتی ہے لیکن سر سید کی اصل محنت اور جذبہ یہ تھا کہ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری علوم میں مسلمان کامیاب ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے مدرسے کی بنیاد ڈالی اور ایسے شاندار مقصد کے تحت چلایا کہ دین بھی بچا رہے، شریعت بھی محفوظ رہے اور ہندوستان کی ترقی میں بھی مسلمانوں کا اہم رول رہے۔

سرسید کا یہی خلوص اور جذبہ تھا کہ انکا مدرسہ ترقی کرتا گیا، کالج بنا اور یونیورسٹی کا درجہ بھی حاصل کر لیا۔ خیال رہے کہ اس دور میں بھی مسلمانوں کے لئے حالات اچھے نہیں تھے بلکہ آج سے زیادہ خراب تھے لیکن سر سید نے حالات کا رونا نہیں رویا، جذبات کے سمندر میں نہیں بہے بلکہ حکمت عملی کے ساتھ دوراندیشی کے ساتھ اپنے مقصد میں لگے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ مدرسہ سے شروع ہوا دارہ اپنے تمام تشخص کے ساتھ ہندوستان اور پوری دنیا میں مسلمانوں کی سربلندی کا گواہ ہے۔ سر سید نے مدرستہ العلوم کا بیچ لگایا، محمدن اینگلو اورینٹل کالج اس کا پودہ بنا اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایک تناور درخت کی شکل میں موجود ہے۔

سر سید احمد خاں نے اپنی حکمت عملی اور دانائی سے مسلمانوں کے تئیں برطانوی نو آبایاتی نظام کی انتقامی آگ کو کچھ ٹھنڈا کیا اور مسلمانان ہند کے لیے اپنی ہر سانس وقف کر دی۔ مستقبل شناس سرسید احمد نے انہیں ماضی کو بھلا کر آگے بڑھنے کا حوصلہ عطا کیا اور اپنی کھوئی ہوئی عظمت کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے تعلیم کا فسوں دیا۔سرسید کا نقطہ نظر تھا کہ قوم کی کامیابی کا واحد زینہ جدید تعلیم ہے۔ انہوں نے پند ونصیحت کی کہ وہ ہرحال میں اسے حاصل کریں۔ لیکن سر سید نے محض مشورہ ہی نہیں دیا بلکہ اس پر عمل آواری کرتے ہوئے سنہ 1859ء میں گلشن اسکول (مرادآباد) ، 1863ء میں وکٹوریہ اسکول (غازی پور) اور سائنٹفک سوسائٹی قائم کی۔مزید برآں 1875ء میں علی گڑھ میں ایک مدرسہ کی داغ بیل ڈا لی جوبعد ازاں 1877ء ایم۔ اے۔ او۔ کالج کہلایا۔

مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کے متعلق سنہ1868ء کی ایک رپورٹ کے مطابق کلکتہ عدالت عالیہ سے 240/سند یافتہ وکیلوں میں ایک مسلمان،107 سندیافتہ ڈاکٹروں میں محض ایک مسلمان،محکمہ تعمیرات کے ہزاروں ملازمین میں صرف ایک مسلمان سب انجینئر تھا۔ اسی طرح جب سرسید نے ایم۔اے۔ او ۔کالج کی بنیاد رکھی تھی تو اس وقت برصغیر میں مسلم گریجوٹیس کی تعداد بہ مشکل بیس(20) تھی۔جن میں سترہ(17)بی۔اے اور تین(3) ایم۔اے تھے۔لیکن سنہ 1877ء میں محمڈن اینگلو اور نیٹل کالج کی تشکیل سے لے کر سرسید احمد کی وفات (1898ء) تک مسلم پوسٹ گریجوٹیس کی تعداد میں % 15 اضافہ دیکھنے میں آیا یعنی ان کی تعداد بیس(20) سے بڑ ھ سے تین (300) سو ہوگئی تھی۔جن میں 126/پوسٹ گریجوٹیس اور 174 انڈر گریجوٹیس تھے۔

سن 1886ء میں سر سید احمد خاں نے محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے نام سے ایک ادارے کی بنیاد رکھی گئی۔ اس کی طرز پرصوبائی ایجوکیشنل کانفرنس قائم کی گئیں۔جس نے برصغیر میں جدید تعلیم کے لیے انقلاب آفریں کارنامہ انجام دیے۔ ان کے اجتماعات میں ممتاز شخصیات شامل ہوتیں اور جن کی تقاریر شرکاء کے ذہن ودل پر اپنے قوی اثرات مرتسم کرتیں۔جس کے بعد مختلف علاقوں میں تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز ہوا۔ سندھ مدرستہ الاسلام یونیورسٹی کراچی، اسلامیہ کالج پشاور اور حلیم کالج کانپور وغیرہ علی گڑھ تحریک کے بطن سے ہی نکلے ہو ئے ادارے ہیں۔

علاوہ ازیں سرسید احمدنے برادران وطن کے رجحان کوآئی۔سی۔ ایس۔ کی طرف موڑنے کے لیے سول سروس امتحان کی ایک انجمن بھی قائم کی۔ان دنوں آئی۔سی۔ ایس۔کے امتحان انگلستان میں منعقد ہوتے تھے۔انہوں نے مسلمانوں اور ہندوؤں دونوں کو سول سروس امتحانات میں شامل ہونے کی ترغیب دی۔ ان کی کاوشوں سے ابنائے وطن کا ایک بڑا حصّہ اس میں شریک ہونے کے لیے کمر بستہ ہوگیا۔بلا شبہ سرسید احمد کی روشن کی ہوئی تعلیمی شمع سے معاشرے کا ہر طبقہ مستفید ہوا۔جس کا اندازہ 1896ء میں لیفٹیننٹ گورنر بنگال کے ان خیالات سے بخوبی ہوجاتا ہے کہ1881ء میں جب میں نے بنگال چھوڑا تھا تو صوبہ مذکورہ کے تمام مدارس اور کالجوں میں ایک لاکھ پچاس ہزار مسلمان طالب علم تھے اور اپنے آنے پر مجھ کو معلوم ہو ا کہ یہ تعداد قریب چار لاکھ نوے ہزار ہوگئی۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ سرسید کے تعلیمی مشن کی اوائل میں مسلمانان ہند نے پرزور مخالفت کی۔ان کی راہ میں مختلف رکاوٹیں حائل کیں لیکن نباض وقت اور مصمم ارادے کے مجسمہ نے کسی کی کوئی پرواہ نہیں کی۔

بھارت ایکسپریس۔

Also Read