سیکیورٹی گارڈز نے بابا صدیقی پر حملہ کرنے والوں کے خلاف جوابی کارروائی کیوں نہیں کی؟ حملہ آوروں کے پاس ذیشان صدیقی کی بھی تصویر تھی
مہاراشٹر میں این سی پی لیڈر بابا صدیقی کے قتل کیس میں مسلسل نئے انکشافات ہو رہے ہیں۔ اب پولس انتظامیہ نے اس حوالے سے بڑی کارروائی کی ہے۔ جو بابا صدیقی کے قتل کے وقت ان کے ساتھ موجود پولیس سیکیورٹی گارڈ کو معطل کر دیا گیا ہے۔ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ بابا صدیقی کی حفاظت کے لیے تعینات کانسٹیبل شیام سوناوڑے نے بابا صدیقی پر گولی چلانے والے ملزمان کے خلاف اپنی طرف سے کوئی کارروائی نہیں کی اور نہ ہی این سی پی لیڈر کو بچانے کی کوشش کی۔
بابا صدیقی کے سیکیورٹی گارڈ نے حملہ آوروں پر جوابی فائرنگ کیوں نہیں کی؟اس بات کی تحقیق کے لیے اندرونی (انٹرنل) تفتیش جاری ہے اور سیکورٹی گارڈسے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔
بابا صدیقی اور سلمان خان کی دوستی پر سلیم خان
وہیں سلمان خان کے والد سلیم خان نے بابا صدیقی قتل کیس کو سلمان خان سے جوڑنے پر حیرت کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ بابا صدیقی ان کے فیملی دوست ہیں۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان کے قتل کا سلمان خان سے ان کی دوستی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں۔
حملہ آوروں کے پاس ذیشان صدیقی کی بھی تصویر تھی
تفتیش اور تفتیش کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ بابا صدیقی پر حملہ کرنے والے ملزمان کے موبائل فونز میں ذیشان صدیقی کی تصویر بھی شامل تھی۔ این سی پی لیڈر بابا صدیقی قتل کیس کی تحقیقات کرتے ہوئے پولیس نے بتایا ہے کہ ملزم اور ہینڈلر کے درمیان سنیپ چیٹ کے ذریعے رابطہ ہوا تھا۔ ایم ایل اے ذیشان کی تصویر اسنیپ چیٹ پر ہی ملزم کے ساتھ شیئر کی گئی۔
بابا صدیقی کو قتل کرنے کے لیے ایک کروڑ روپے مانگے گئے تھے
پولیس تفتیش کے دوران ملزمان نے یہ بھی بتایا کہ بابا صدیقی کو قتل کرنے کے لیے ہینڈلر سے ایک کروڑ روپے مانگے تھے۔ وہ ذیشان صدیقی کے دفتر کی ریکی کرتے تھے ، کیونکہ انہیں بھی قتل کرنے کا منصوبہ بنایا جا رہا تھا۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں بابا صدیقی کو گولی ماری گئی تھی۔
بھارت ایکسپریس