یوپی پولیس میں بھرتی کے امتحان کی تاریخوں کا اعلان، جانئے کب ہوگا پیپر
یوپی کی مظفرنگرپولیس نےکانوڑیاترا 2024 سے متعلق ایک متنازعہ حکم نامہ جاری کردیا ہے، جس سے سیاسی ہنگامہ آرائی ہورہی ہے۔ پولیس نےکانوڑیاترا کے راستوں میں آنے والے سبھی ریسٹورنٹ، دکانوں، ہوٹلوں اورٹھیلے والوں سے اپنی دکان کے آگے نام لکھنے کی ہدایت دی ہے۔ اس کے سوشل میڈیا پرسوال اٹھایا جا رہا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ لوگوں کو مذہب کے نام پرتقسیم کرنے یا بانٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس معاملے پرسیاسی پارٹیوں کی طرف سے بھی اعتراض کیا گیا ہے اوریوپی کی یوگی حکومت اوریوپی پولیس پرسوال اٹھایا گیا ہے۔ حالانکہ اس معاملے پر ہنگامہ آرائی ہوتا دیکھ کر یوپی پولیس نے اپنے فیصلے کا بچاؤ کرتے ہوئے کہا کہ ایسا اس لئے کیا جا رہا ہے تاکہ کانوڑیوں کے درمیان کسی طرح کا کنفیوژن نہ ہواورمستقبل میں کوئی الزام نہ لگے، جس سے لاءاینڈ آرڈر متاثر ہو۔ پولیس کے اس حکم نامہ پرکانگریس، سماجوادی پارٹی، اے آئی ایم آئی ایم سمیت نغمہ نگارجاوید اختروغیرہ نے بھی سوال اٹھاتے ہوئے اسے ناقابل قبول بتایا ہے۔
اکھلیش یادونے یوپی پولیس اورحکومت پراٹھائے سوال
اکھلیش یادونے یوپی پولیس کے اس فیصلے پرسوال اٹھاتے ہوئے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پرلکھا، ”…اورجس کا نام گڈو، منا، چھوٹا یا فتے ہے، اس کے نام سے کیا پتہ چلے گا؟ عدالت کواس معاملے پرازخود نوٹس لینا چاہئے اورایسی انتظامیہ اوراقتدارپرقابض لوگوں کی منشا کی جانچ کرواکر، مناسب سزا دینے کی کارروائی ہونی چاہئے۔ اکھلیش یادونے آگے لکھا ہے کہ ایسے حکم سماجی طورپرجرم ہیں، جوآپسی بھائی چارہ کی پرامن فضا کوخراب کرنا چاہتے ہیں۔”
مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنا رہی ہے حکومت: اویسی
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اورحیدرآباد کے ایم پی اسدالدین اویسی نے کہا کہ اترپردیش کی حکومت چھوا چھوت کوپرموٹ کررہی ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ مظفرنگرکے ڈھابوں سے مسلمانوں کونوکری سے نکال دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا لگ رہا ہے کہ ان میں ہٹلرسما گئے ہیں۔ کیا آپ ایک ہی طبقے کے لئے کام کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہندو تنظیموں کے دباؤمیں یہ سب کیا جا رہا ہے۔ یہ مسلمانوں کوسیکنڈ گریڈ سٹیزن بنانا چاہتے ہیں۔
جاوید اخترنے بتایا جرمنی کے نازیوں جیسا فرمان
جاوید اختر نے بھی یوپی پولیس کے اس فیصلے پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے جرمنی کے نازیوں جیسا فیصلہ بتایا ہے۔ جاوید اخترنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پرلکھا،”مظفرنگریوپی پولیس نے احکامات دیئے ہیں کہ آنے والے دنوں میں کسی مخصوص مذہبی جلوس کے روٹ پرسبھی دوکانوں، ریسٹورنٹ اوریہاں تک کہ گاڑیوں پرمالک کا نام خاص طورپراورواضح طورپرلکھا جائے۔ ایسا کیوں؟” انہوں نے آگے لکھا، ”نازی جرمنی میں صرف خصوصی دوکانوں اورگھروں پرنشان بناتے تھے۔”
پون کھیڑا نے مسلمانوں اوردلتوں کا ہو رہا ہے معاشی بائیکاٹ؟
کانگریس لیڈر پون کھیڑا نے بھی سخت الفاظ میں اس کی مخالفت کی ہے۔ انہوں نے پوچھا ہے کہ کیا ہندوؤں کا بیچا ہوا میٹ یعنی گوشت دال بھات بن جاتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ پھل سبزی فروشوں اورریسٹورنٹ، ڈھابہ کے مالکان کو کانوڑ یاترا کے راستے پربورڈ پراپنا نام لکھنا ضروری ہوگا؟ یہ مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کی سمت میں اٹھایا گیا قدم ہے یا دلتوں کے معاشی بائیکاٹ کا، یا پھردونوں کا؟ ہمیں نہیں معلوم ، جولوگ یہ طے کرنا چاہتے تھے کہ کون کیا کھائے گا، اب یہ بھی طے کریں گے کہ کون کس سے کیا خریدے گا؟ بہرحال یوپی پولیس کے اس فیصلے کی ہرطرف تنقید کی جارہی ہے اور اسے کسی بھی طرح سے درست قرارنہیں دیا جاسکتا ہے کیونکہ اس سے یہی پیغام اورسندیش جاتا ہے کہ ایک مخصوص طبقے کا بائیکاٹ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس طرح کے حکم کی مخالفت کی بھی جانی چاہئے۔
بھارت ایکسپریس-