بہار میں شراب سکینڈل پر سی ایم نتیش کا اعلیٰ سطحی جائزہ، قصورواروں کے خلاف سخت کارروائی کا دیا حکم
’’کچھ تو مجبوریاں رہی ہونگی ، یونہی کوئی بے وفا نہیں ہوتا‘‘ نامور شاعر بشیر بدر کا یہ شعر ملکی سیاست میں حالیہ تبدیلیوں کے متعلق بالکل فٹ بیٹھتا ہے۔ بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے ایک بار پھراپنا رخ بدل کر ثابت کر دیا ہے کہ یا تو ‘انڈیا’ اتحاد نے انہیں سنجیدگی سے نہیں لیا یا ‘این ڈی اے’ اتحاد نے انہیں بہت سنجیدگی سے لیا۔ سیاسی حلقوں میں کافی قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں کہ نتیش کمار کے اس قدم کے پیچھے کیا وجہ ہو سکتی ہے۔ وجہ کچھ بھی ہو، ووٹروں میں 2024 کے لوک سبھا انتخابات سے پہلے ہی کافی جوش و خروش دیکھنے کو مل رہا ہے۔
ایک طرف، بہار میں جو کچھ بھی ہوا اس کے پیچھے ‘انڈیا’ اتحاد میں سمجھوتہ کی کمی ہے۔ دوسری طرف اپوزیشن جماعتوں کے ‘انڈیا’ اتحاد کے کچھ لیڈروں میں ایک طرح کا ‘خوف’ ہے۔ ان لیڈروں کو لگتا ہے کہ وہ غیر ضروری طور پر کسی تنازعہ میں الجھ جائیں گے اور حکمران جماعت آئندہ انتخابات میں اس کا فائدہ اٹھائے گی۔ لیکن اگر ہم نتیش کمار کی بات کریں تو اپوزیشن جماعتوں کو جوڑنے میں انہوں نے جس طرح پہل کی اس کی کسی کو توقع نہیں تھی۔ لیکن یہاں ایک بات اہم ہے کہ نتیش کمار جیسے تجربہ کار اور طاقتور لیڈر نے ‘انڈیا’ اتحاد کے ساتھ جو کچھ کیا اس کے پیچھے کوئی ٹھوس وجہ ضرور رہی ہوگی۔
جیسا کہ ہم نے چند ہفتے پہلے اس کالم میں لکھا تھا کہ مودی سرکار میں کسی قسم کی قیاس آرائیوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ وزیر اعظم کے ذہن میں جو کچھ ہوتا ہے، وہ ہر ممکن کوشش سے اسے پورا کرتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر اور افتتاح ہے۔ اس لیے اپوزیشن پارٹیاں نتیش کمار کے رخ بدلنے کے بارے میں جو قیاس آرائیاں کر رہی ہیں وہ درست نہیں ہو سکتی ہیں۔ کون جانتا ہے، وزیر اعظم نے نتیش کمار کے لیے کچھ بڑا منصوبہ بنایا ہوگا۔ جس کا علم صرف امت شاہ کو ہے اور شاید صرف نتیش جی کو، اسی لیے انہوں نے یہ قدم اٹھایا۔
جہاں تک قیاس آرائیوں کا تعلق ہے، ایک چیز جو میڈیا کے گلیاروں میں گردش کر رہی ہے وہ یہ ہے کہ شاید وزیر اعظم نے نتیش کمار کو ملک کا اگلا نائب صدر بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ لیکن ایسا ممکن نہیں لگتا کیونکہ موجودہ نائب صدر جگدیپ دھنکڑ کی مدت کار ابھی اگست 2022 میں شروع ہوئی ہے جو 2027 تک جاری رہے گی۔ ایسے میں اگر انہیں وقت سے پہلے اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا تو اس کے پیچھے کوئی ٹھوس وجہ ضرور ہوگی۔ لیکن ایک اور خبر ہے جو سیاسی حلقوں میں گردش کر رہی ہے کہ 2024 میں بننے والی مودی حکومت میں نتیش کمار کو لوک سبھا کا اسپیکر بنایا جائے گا۔ یہ پیشن گوئی درست سمجھی جا سکتی ہے کیونکہ 2024 میں بننے والی حکومت میں لوک سبھا کے اسپیکر کی تقرری موجودہ عہدے پر فائز شخص کی میعاد کو کم کیے بغیر کی جائے گی۔ اگر دیکھا جائے تو لوک سبھا اسپیکر کا عہدہ بھی راجیہ سبھا اسپیکر کے عہدے کی طرح ایک آئینی عہدہ ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ راجیہ سبھا کا چیئرمین ہمیشہ ملک کا نائب صدر ہوتا ہے۔ اس لیے اگر نتیش کمار کو لوک سبھا کا اسپیکر بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے تو اس بات کا امکان ہے کہ یہ بھی نتیش کا رخ بدلنے کی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ 2024 کے انتخابات میں سیاسی اونٹ کس طرف بیٹھے گا۔ لیکن اگر ایسا کچھ نہیں ہوتا ہے تو یہ یقینی ہے کہ نتیش جی کی جے ڈی یو بہار میں اپنی بنیاد کھو دے گی۔ یعنی ‘نہ خدا ملا، نہ وصال صنم،
پانچ ریاستوں میں حال ہی میں مکمل ہونے والے انتخابات کے بعد تمام ٹی وی مباحثوں میں سیاسی تجزیہ کار اس بات پر خاص زور دے رہے ہیں کہ اپوزیشن جماعتوں کو آپس میں متحد ہو کر انتخابی میدان میں اترنا چاہیے تھا۔ جو بھی علاقائی پارٹیاں اپنی اپنی ریاستوں میں مضبوط پوزیشن میں ہیں، انہیں اب 2024 کے لوک سبھا انتخابات سے پہلے عوام کے درمیان مہم چلانی چاہیے۔ اس کے ساتھ وہ ان جماعتوں کو بھی سپورٹ کریں جہاں دوسری پارٹیاں مضبوط ہوں۔ اگر اپوزیشن پارٹیاں ایک دوسرے کے ووٹ نہیں کاٹتی ہیں تو بی جے پی کے لیے ان کے اتحاد کی بھولبلییا کو عبور کرنا مشکل ہو جائے گا۔ یہ تبھی ہو سکتا ہے جب تمام اپوزیشن جماعتیں اکٹھی ہو جائیں اور اتفاق رائے تک پہنچ جائیں اور الیکشن لڑیں۔ کامیاب جمہوریت میں حکمران جماعت اور اپوزیشن کا مضبوط ہونا ضروری ہے۔ اپوزیشن اسی وقت مضبوط ہو گی جب وہ متحد ہو گی۔
لیکن جس طرح حزب اختلاف کی جماعتوں کے ‘انڈیا’ اتحاد نے شروع میں مضبوط شکل اختیار کرنے کی کوشش کی تھی، اسی طرح اس کی بڑی پارٹیوں کی ‘انڈیا’ اتحاد سے علیحدگی اچھے اشارے نہیں دے رہی ہے۔ انتخابات سے پہلے کی سیاست محض تصورات کا کھیل ہے۔ ووٹرز کو سوچنا ہوگا کہ کون سی پارٹی یا اتحاد ان کے مفاد میں ہے۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ نتیش کمار دوبارہ این ڈی اے کا حصہ کیوں بنے؟
بھارت ایکسپریس۔