راجیہ سبھا کے چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے مسئلے پر کانگریس کے سینئر رہنما اور راجیہ سبھا رکن سید ناصر حسین نے کہا کہ ہمیں ایوان میں اپنی آوازاٹھانے سے روکا جاتا ہے،ہمیں موقع نہیں دیا جاتا ،چیئرمین جانبدارانہ رویہ اپناتے ہیں۔اس لئے ہمیں مجبوری میں یہ تحریک پیش کرنی پڑی ہے۔ بھارت ایکسپریس سے خاص بات چیت کے دوران ڈاکٹر ناصر حسین نے کہا کہ جمہوریت کے اس مندر میں ہر کسی کو مساوی حقوق حاصل ہیں لیکن جب اپوزیشن کو یہ اندازہ ہوگیا کہ یہاں چیئرمین پوری طرح سے اپوزیشن کو دبانے کیلئے کام کررہے ہیں ،انہیں آواز نہیں اٹھانے دے رہے ہیں تب اپوزیشن کے پاس جمہوری طریقہ یہی ہوتا ہے کہ وہ چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرے۔
سید ناصر حسین نے کہا کہ ہمیں ایوان میں اپنے حق سے محروم کیا جارہا ہے۔ آواز اٹھانا، مسائل کو پیش کرنا ، حکومت سے سوال پوچھنا یہ ہمارا آئینی حق ہے اور جب بھی ہم حکومت سے عوامی مسائل پر سوال پوچھنے کیلئے چیئرمین سے درخواست کرتے ہیں وہ ہماری درخواست کو نامنظور کردیتے ہیں ۔ ایوان میں کاروائی کے دوران مناسب وقت نہیں دیا جاتا ،اپوزیشن کو بولنے کا بہت کم موقع دیا جاتا ہے ،ایسے میں اپوزیشن کے پاس چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں بچتا۔
سید ناصر حسین نے چیئرمین جگدیپ دھنکڑ کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ وہ سینئر ترین رہنماوں کے ساتھ اسکولی بچوں کی طرح کا سلوک کرتے ہیں ،انہیں ایسے سمجھاتے ہیں گویا وہ چھوٹے بچے ہوں ، حالانکہ سیاسی میدان میں ان سے کہیں زیادہ تجربہ کار رہنما اپوزیشن میں اس وقت ہیں ،پھر بھی ان کی توہین کرنے ،ان پر تنقید کرنا ،انہیں بولنے کا موقع نہیں دینا ،یہ چیئرمین کا شیوہ بن چکا ہے ،حالانکہ حکمراں جماعت کے اراکین کو ضابطے کی پاسداری کے بغیر بھی بولنے کی اجازت دے دی جاتی ہے جو کہ ناانصافی ہے، اسی لئے ہم لوگوں نے عدم اعتماد کی تحریک پیش کی ہے۔
وہیں ای وی ایم پر سپریم کورٹ جانے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ ای وی ایم کے خلاف ہم کل بھی آواز اٹھا رہے تھے اور آج بھی اٹھا رہے ہیں ،چونکہ انتخابات میں ووٹنگ فیصد ہوتی کچھ ہے،بتائی کچھ اور جاتی ہے اور نکل کر کچھ اور آتی ہے۔ مہاراشٹر میں گاوں گاوں اور شہردر شہر عوام اس کے خلاف احتجاج کررہے ہیں ۔یہ عوامی فکر سے جڑا ہوا مسئلہ ہے۔ اس لئے ہم اس کے خلاف الیکشن کمیشن سے بھی وضاحت طلب کررہے ہیں اور سپریم کورٹ بھی جارہے ہیں۔
بھارت ایکسپریس۔