سپریم کورٹ آف انڈیا (فائل فوٹو)
سپریم کورٹ نے جمعرات کے روز تبصرہ کیا کہ چاہے ایک فریق ہو یا دوسرا۔ سب کے ساتھ ایک جیسا برتاؤ کیا جانا چاہئے۔ جہاں بھی ہیٹ اسپیچ (نفرت آمیز تقاریر) ہوگی، اس سے قانون کے مطابق نمٹا جائے گا۔ ہیٹ اسپیچ پر سپریم کورٹ نے تبصرہ کیا کہ ہم اس بات پر دھیان نہیں دیں گے کہ کس فریق نے کیا کیا۔ ہم نفرت پھیلانے والی تقاریر سے قانون کے مطابق نمٹیں گے۔
سپریم کورٹ نفرت پھیلانے والی تقاریراورنوح فرقہ وارانہ تشدد سے متعلقہ عرضیوں پرسماعت کر رہا تھا۔ جہاں ایک عرضی میں احتجاجی ریلیوں پر روک لگانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ وہیں دوسری عرضی میں مسلمانوں کے سماجی اور اقتصادی بائیکاٹ کی اپیل کی شکایت کی گئی ہے۔
ایک وکیل نے کہا، ’’کیرلا میں آئی یوایم ایل کے ذریعہ ایک ریلی کی گئی تھی اوراس دن انہوں نے ہندوؤں کے قتل سے متعلق نعرے لگائے تھے۔ اس پر جسٹس سنجیو کھنہ نے کہا کہ میں واضح طور پرکہوں کہ چاہے ایک فریق ہو یا دوسرا۔ ان کے ساتھ ایک جیسا برتاؤ کیا جانا چاہئے اورجہاں بھی نفرتی خطاب ہوگا، ان سے قانون کے مطابق نمٹا جائے گا۔ نوح تشدد کے بعد مہاپنچایت میں مسلمانوں کے خلاف بائیکاٹ کی مہم کے خلاف عرضیوں پرسپریم کورٹ نے حکومت سے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ اس معاملے میں نفرت آمیز تقاریرسے متعلق عدالت کی گائیڈ لائن پرعمل کیا گیا ہوگا۔ سپریم کورٹ 25 اگست کو اس عرضی پر سماعت کرے گا۔
نفرت آمیز تقاریر اور ہیٹ کرائم پر سپریم کورٹ سخت
گزشتہ سماعت میں ہیٹ اسپیچ اورہیٹ کرائم پر سپریم کورٹ نے سخت خیالات کا اظہارکیا تھا۔ سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ ہیٹ کرائم اورہیٹ اسپیچ پوری طرح ناقابل قبول ہے۔ مستقبل میں ایسے حادثات نہ ہوں، میکنازم بننا ضروری ہے۔ ہمیں اس پریشانی کا حل نکالنا ہوگا۔ سپریم کورٹ نے مرکز سے ایسے حادثات کو روکنے کی تجویز مانگی تھی۔ سپریم کورٹ نے فی الحال ریلیوں وغیرہ پر پابندی لگانے کا حکم دینے سے انکار کیا ہے۔
سپریم کورٹ نے عرضی گزاروں سے کہا ہے کہ وہ اپنے پاس دستیاب نفرت آمیزتقاریر کے میٹریل کو تحسین پونا والا فیصلے کے مطابق نوڈل افسرکو دیں۔ نوڈل افسرکمیٹی کواس طرح کی شکایتوں پرحل کے لئے وقت ملنا چاہئے۔ جسٹس سنجیو کھنہ نے کہا تھا، ہم ڈی جی پی سے کہیں گے کہ وہ ایک کمیٹی کی تشکیل کریں، جوالگ الگ علاقوں کے ایس ایچ اوسے حاصل نفرت آمیزتقاریر پرغورکرکے ان کے کنٹنٹ کی جانچ کرے اورمتعلقہ پولیس افسران کواس بارے میں احکامات جاری کرے۔
بھارت ایکسپریس۔