شراوستی اور ڈومریا گنج لوک سبھا سیٹ پر سماجوادی پارٹی اور بی جے پی کے درمیان سخت مقابلہ ہے۔
سماجوادی پارٹی نے شراوستی سے موجودہ ایم پی رام شرومنی ورما کوامیدواربنایا ہے جبکہ ڈومریا گنج سے برہمن طبقے کا بڑا چہرہ مانے جانے والے کشل تیواری کو ٹکٹ دیا ہے۔ بی جے پی نے شراوستی سے ایم ایل سی اور یوپی کے سی ایم کے بے حد قریبی ساکیت مشرا کو ٹکٹ دیا جبکہ ڈومریا گنج سے موجودہ ایم پی جگدمبیکا پال قسمت آزما رہے ہیں۔ 2019 کے مقابلے 2024 کے لوک سبھا الیکشن میں ماحول تھوڑا مختلف نظر آرہا ہے۔
سماجوادی پارٹی نے دونوں سیٹوں پر ذات پات پر مبنی کارڈ کھیل کر مقابلے کو دلچسپ بنا دیا ہے بلکہ اگر زمینی حقیقت کی بات کی جائے تو شراوستی سے رام شرومنی ورما کی پوزیشن مضبوط مانی جار ہی ہے، لیکن بی جے پی امیدوار ساکیت مشرا کو ہلکے میں نہیں لیا جاسکتا ہے۔ بی ایس پی کے امیدوار حاجی ددن خان بھی اپنے لئے ووٹ مانگ رہے ہیں، لیکن وہ مقابلے میں کافی پیچھے نظر آرہے ہیں۔ رام شرومنی ورما کا تعلق یوپی کے امبیڈکرنگر سے ہے، لیکن 2019 کے لوک سبھا الیکشن میں انہوں نے بی ایس پی کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی تھی، تب وہ بی ایس پی اور سماجوادی پارٹی الائنس کے مشترکہ امیدوار تھے۔ انہوں نے بی جے پی کے ددن مشرا کو تقریباً 5 ہزار ووٹوں سے ہرایا تھا۔ رام شرومنی ورما اب لال ٹوپی لگا کر سائیکل کی سواری کر رہے ہیں اور دوبارہ پارلیمنٹ پہنچناچاہتے ہیں۔ رام شرومنی ورما کا تعلق کرمی برادری سے ہے، ان کی برادری کے لوگ اس بار ان کے لئے تن من دھن کے ساتھ لگے ہوئے ہیں۔ دراصل، جب رام شرومنی ورما کا ٹکٹ سماجوادی پارٹی نے کاٹ دیا اور دھیریندر پرتاپ سنگھ عرف دھیرو سنگھ کو امیدوار بنا دیا ، تب سے کرمی برادری پوری مضبوطی کے ساتھ ان کے ساتھ کھڑی ہوگئی، جس کا فائدہ یہ ہوا کہ وہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہوگئے۔ یادو برادری کی بھی کافی حد تک واپسی ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے اور وہ سماجوادی پارٹی کے امیدوار کے ساتھ نظر آرہے ہیں۔ مسلم ووٹرس یا رائے دہندگان پوری طرح سے خاموش ہیں، لیکن ان کا یکطرفہ جھکاؤ انڈیا الائنس کی طرف دیکھنے کو مل رہا ہے۔ شراوستی اور بلرام پور کے تقریباًتمام مسلم لیڈران کی بھی انہیں مکمل حمایت حاصل ہے۔ سابق ایم پی رضوان ظہیرسے لے کرتمام مسلم لیڈران کی انہیں حمایت حاصل ہے۔ رضوان ظہیر تو جیل میں بند ہیں، لیکن ان کی بیٹی زیبا رضوان کی پوری ٹیم رام شرومنی ورما کی حمایت کے لئے انتخابی تشہیر چلا رہی ہے۔ وہیں سابق ایم ایل اے عبدالمشہود خان بھی کندھے سے کندھا ملا کرچل رہے ہیں۔ اس کے علاوہ محمد اسلم راعینی ، عبدالحئی، نورالحسن خان، عمران مرتضیٰ، محمد عارف خان عرف حاجی پتو کے علاوہ کانگریس کے ڈاکٹر اشتیاق احمد، اختر پردھان، جاوید اشرف اور عارفہ بیکل اتساہی وغیرہ بھی رام شرومنی ورما کو مضبوطی دے رہے ہیں۔ ان تمام لیڈران کے ساتھ آنے کی صورت میں مسلم ووٹوں کی تقسیم بالکل نہ ہونے کا امکان ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ کانگریس کے سینئر لیڈر دھیریندر پرتاپ سنگھ عرف دھیرو سنگھ بھی خاموش ہیں اوروہ رام شرومنی ورما کی مخالفت نہیں کر رہے ہیں بلکہ کہا جا رہا ہے کہ وہ راہل گاندھی کو مضبوط کرنے کے لئے انڈیا الائنس کی حمایت کر رہے ہیں۔
وہیں دوسری جانب ، بی جے پی کے امیدوار ساکیت مشرا بھی پوری طرح سے مضبوط ہیں۔ وہ خود تعلیم یافتہ ہیں اور پی ایم مودی سے لے کر سی ایم یوگی سے کافی قربت رکھتے ہیں۔ بی جے پی کا اپنا ووٹ بینک ہے اور ان کے لئے پی ایم مودی، سی ایم یوگی، ڈپٹی سی ایم کیشو پرساد موریہ اور برجیش پاٹھک سے لے کر انوپریہ پٹیل تک نے ووٹ مانگا ہے اور وہ نریندر مودی کو تیسری بار پرائم منسٹر بنانا چاہتے ہیں۔ بی جے پی سنگٹھن یاپنی پوری طاقت کے ساتھ انہیں الیکشن لڑا رہی ہے، لیکن اندرونی طور پر کچھ بغاوت کی بات بھی سامنے آرہی ہے، جس کا انہیں نقصان ہوسکتا ہے۔ حالانکہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ رام شرومنی ورما اور ساکیت مشرا میں مقابلہ دلچسپ ہوسکتا ہے۔ اب دیکھنے کی بات یہ ہوگی کہ بی ایس پی امیدوار حاجی ددن خان کی کوششیں کتنی رنگ لاتی ہیں۔ لیکن ابھی وہ مقابلے سے پوری طرح سے باہر نظر آرہے ہیں۔
اگر بات ڈومریاگنج لوک سبھا سیٹ کی کی جائے تو وہاں بھی مقابلہ بی جے پی ایم پی جگدمبیکا پال اور سماج وادی پارٹی کے بھیشم شنکر تیواری عرف کشل تیواری کے درمیان سخت مقابلہ ہے۔ بی ایس پی سے محمد ندیم مرزا اور چندر شیکھر راون کی آزاد سماج پارٹی سے چودھری امر سنگھ بھی الیکشن لڑ رہے ہیں۔ چودھری امرسنگھ کو علاقائی ہونے کی وجہ سے کچھ حمایت ضرورمل رہی ہے، لیکن یہاں بھی کشل تیواری کی طرف عوام کا زیادہ جھکاؤ دیکھنے کومل رہا ہے۔ کشل تیواری کے ساتھ برہمن طبقہ پوری مضبوطی کے ساتھ لگا ہوا ہے، جبکہ ان کو مسلم اوریادو ووٹروں کابھی ساتھ مل رہا ہے۔ جگدمبیکا پال کے ساتھ بھی کچھ یادوووٹ ہیں کیونکہ حال ہی میں سماجوادی پارٹی چھوڑنے والے چنکو یادو پوری طرح سے ان کے لئے فیلڈنگ کر رہے ہیں۔ لیکن جگدمبیکا پال 15 سالوں سے ڈومریا گنج کی نمائندگی کر رہے ہیں، اس لئے ان کے خلاف اینٹی انکمبنسی کا ماحول بھی دیکھنے کومل رہا ہے۔ ان کے لئے بھی پی ایم مودی کے علاوہ بی جے پی کے کئی سینئرلیڈران نے انتخابی تشہیرکی ہے۔ بہرحال یہاں بھی کشل تیواری اور جگدمبیکا پال ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑنے کے لئے جدوجہد کررہے ہیں۔
بھارت ایکسپریس۔