جماعت اسلامی ہند نے اپوزیشن کے اراکین پارلیمنٹ کی معطلی پر سوال اٹھایا ہے۔
نئی دہلی: آزادی کے 75 سال گزرجانے کے باوجود پارلیمنٹ اوراسمبلیوں میں خواتین کی نمائندگی ہنوزانتہائی مایوس کن ہے جبکہ ایک مضبوط جمہوریت کے لئے ضروری ہے کہ اقتدارکی تقسیم میں ملک کے تمام طبقات کومناسب نمائندگی دی جائے۔ خواتین کی نمائندگی کو ان کی تعداد کے اعتبارسے ایک حد تک لانے کی کوششوں میں حالیہ ویمن ریزرویشن بل ( ناری شکتی وندن بل 2023) ایک اچھا قدم ہے۔ اسے بہت پہلے آجانا چاہئے تھا“۔ یہ باتیں نائب امیر جماعت اسلامی ہند پروفیسرسلیم انجینئرنے میڈیا کو جاری ایک بیان میں کہی۔
پروفیسرسلیم انجینئرنے مزید کہا کہ ”بل کے مسودہ میں او بی سی اور مسلم خواتین کو الگ رکھا گیا ہے۔ اس طرح کے بل سے جس میں ان دو طبقوں کو شامل نہیں کیا گیا، ملک میں پائے جانے والے سماجی عدم مساوات کو دور نہیں کیا جاسکتا ہے۔ حالانکہ مسودے میں ایس سی اور ایس ٹی کی خواتین شامل ہیں مگراوبی سی اورمسلم کمیونٹی کی خواتین کو نظراندازکرنا حیرت ناک ہے۔ جبکہ مختلف رپورٹوں اورمطالعوں میں مثال کے طورپرسچرکمیٹی رپورٹ (2006)، پوسٹ سچرایولیشن کمیٹی رپورٹ (2014) ڈاؤرسٹی انڈیکس پرماہرین کی رپورٹ (2008)، انڈیا ایکس کلوزن رپورٹ (2013-14) اور2011 کی مردم شماری اورتازہ ترین این ایس ایس رپورٹ، ان تمام میں مسلمانوں خاص طورپرخواتین کی سماجی واقتصادی پسماندگی کوبتایا گیا ہے۔ مزید براں پارلیمنٹ اوراسمبلیوں میں مسلمانوں کی نمائندگی مسلسل کم ہوتی جارہی ہے۔ یہ نمائندگی ان کی آبادی کے اعتبارسے قطعی نہیں ہے۔“
جماعت اسلامی ہند کے نائب امیرانجینئرسلیم نے کہا کہ ”بل کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ اگلی مردم شماری کے بعد ہی عمل میں لایا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس بل کے فائدے 2030 کے بعد ہی حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ اس سے توایسا لگتا ہے کہ یہ بل آئندہ پارلیمانی انتخابات کو مد نظررکھتے ہوئے سامنے لایا گیا ہے اوراس کے نفاذ میں اخلاص کی کمی نظرآرہی ہے۔ جبکہ ملک میں سماجی عدم مساوات کو دورکرنے کے لئے ریزرویشن ایک مؤثرطریقہ ہے، جسے عمل میں لاکراس کمی کو دورکیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا اس بل یعنی ویمن ریزرویشن بل میں او بی سی اورمسلم خواتین کو نظر اندازکرنا ناانصافی ہوگی اورحکومت کا جو نعرہ ہے”سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘‘ یہ عمل اس پالیسی کے بھی خلاف ہے۔