بھارت اسرائیل کے بڑھتے ہوئے تعلقات
India-Israel’s Growing Relations: 2017 میں وزیر اعظم نریندر مودی نے اسرائیل کا دورہ کیا اور اسرائیل کا دورہ کرنے والے پہلے وزیر اعظم بنے۔ اس سے پہلے کسی بھارتی وزیراعظم نے اسرائیل کا دورہ نہیں کیا۔
ہندوستان اور اسرائیل کے تعلقات میں ایک نیا سنگ میل دیکھا جا رہا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب حماس نے اسرائیل پر راکٹوں سے حملہ کیا تو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اس کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے دہشت گردانہ حملہ قرار دیا۔ پی ایم مودی کے اس بیان کے بعد ہندوستان میں اسرائیلی سفیر ناورگیلون نے دعویٰ کیا کہ اسرائیل کو ہندوستان سے بھرپور حمایت مل رہی ہے۔ ناورگیلون نے یہاں تک کہا کہ ہندوستان دہشت گردی کے چیلنج کو سمجھتا ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی اور اسرائیلی سفیر کے بیانات سے واضح ہے کہ ہندوستان اور اسرائیل بہت قریب آچکے ہیں۔ حالانکہ پہلے ہندوستان اسرائیل سے فاصلہ رکھتا تھا۔ اقوام متحدہ نے 1948 میں اسرائیل کو الگ ملک قرار دیا۔ اس کے بعد بھارت کے اسرائیل کے ساتھ تقریباً چار دہائیوں تک سفارتی تعلقات نہیں رہے۔ ہندوستان کے اس وقت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو سمیت کئی لیڈروں کا ماننا تھا کہ مذہب کی بنیاد پر کوئی ملک نہیں بنایا جانا چاہیے۔ اسرائیل صرف مذہب کی بنیاد پر بنایا گیا تھا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ 1950 میں بھارت نے اسرائیل کو ایک ملک کے طور پر تسلیم کیا۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس کے بعد بھی ہندوستان وقتاً فوقتاً اسرائیل سے مختلف رائے کا اظہار کرتا رہا۔ 1956 میں جب نہر سویز کا تنازعہ ہوا تو ہندوستان اسرائیل کے خلاف مصر کی حمایت میں تھا۔ ہندوستان نے 1967 کی اسرائیل فلسطین جنگ میں فلسطین کی حمایت کی تھی۔ ہندوستان نے کہا کہ وہ فلسطینیوں کے جائز حقوق کی حمایت کرتا ہے۔ بھارت نے 1992 میں اسرائیل کے ساتھ باضابطہ سفارتی تعلقات قائم کیے تھے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس کے بعد بھی بھارت نے 2006 کی لبنان جنگ اور 2014 کی غزہ جنگ میں اسرائیل کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ لیکن 2014 میں نریندر مودی کے ہندوستان کے وزیر اعظم بننے کے بعدہندوستان اور اسرائیل کے تعلقات میں ایک تاریخی تبدیلی آئی۔ بی جے پی کی دلیل یہ رہی ہے کہ ہندوستان اور اسرائیل فطری اتحادی ہیں۔ جب کہ غیر بی جے پی حکومتیں یہ بحث کرتی رہی ہیں کہ ہندوستان کو مسلمانوں کی بڑی آبادی کی وجہ سے اسلامی ممالک کا ساتھ دینا پڑتا ہے۔
2017 میں وزیر اعظم نریندر مودی نے اسرائیل کا دورہ کیا اور اسرائیل کا دورہ کرنے والے پہلے وزیر اعظم بنے۔ اس سے پہلے کسی بھارتی وزیراعظم نے اسرائیل کا دورہ نہیں کیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وزیر اعظم مودی اور اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے درمیان ذاتی تعلقات بہت مضبوط ہیں۔ تجارت، زراعت، ثقافت اور دفاع کے معاملات میں ہندوستان اور اسرائیل کے درمیان تعاون میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ برسوں میں بھارت اور اسرائیل کے درمیان کئی مشترکہ فوجی مشقیں ہو چکی ہیں۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو 2018 میں ہندوستان آئے تھے۔ اس دورے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان خلائی، اطلاعات اور دہشت گردی کے شعبوں میں بھی تعاون میں نمایاں اضافہ ہوا۔
آج اسرائیل دفاعی میدان میں ہندوستان کا چوتھا سب سے بڑا اتحادی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ماضی میں بھی اسرائیل وقتاً فوقتاً ہندوستان کی مدد کرتا رہا ہے۔ 1971 اور 1999 کی پاک بھارت جنگوں کے دوران اسرائیل نے بھارت کے ساتھ اسلحہ، گولہ بارود اور انٹیلی جنس معلومات شیئر کیں۔ آج بھارت اسرائیلی ہتھیاروں کے سب سے بڑے خریداروں میں شامل ہے۔ ہندوستان نے اسرائیل سے چار ہیرون مارک ٹو ڈرون لیز پر لیے ہوئے ہیں ۔ جو ہندوستان کی سرحد پر چوکسی کرتے ہیں اور ضرورت کے وقت ہتھیار بھی لے جاتے ہیں۔
اسرائیل کے ساتھ دوستی کے ساتھ ساتھ ہندوستان نے فلسطین کے ساتھ بھی تعلقات برقرار رکھے ہیں۔ 2017 میں فلسطین کے صدر محمود عباس نے ہندوستان کا دورہ کیا۔ چنانچہ 2018 میں پی ایم مودی فلسطین بھی گئے۔ ہندوستان کی مشرق وسطیٰ کی پالیسی کے پیچھے اسرائیل کے ساتھ ساتھ فلسطین کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے کی سفارت کاری ہے۔ ہندوستان نے اسرائیل کے ساتھ ساتھ مشرق وسطیٰ کے ممالک بشمول فلسطین اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو نئی قوت بخشی ہے۔ سعودی عرب کے علاوہ ہندوستان متحدہ عرب امارات کا بھی اہم اتحادی ہے۔ خلیجی ممالک میں لاکھوں ہندوستانی کام کر رہے ہیں۔ بھارت خود دہشت گردانہ حملوں کا شکار رہا ہے۔ ایسے میں ہندوستان اسرائیل کے تحفظات کو سمجھتا ہے۔
بھارت ایکسپریس