عتیق احمد کا بیٹا اسد اور غلام محمد انکاونٹر میں ہلاک
Asad Encounter: امیش پال قتل سانحہ میں مطلوب عتیق احمد کے بیٹے اسد کو یوپی ایس ٹی ایف نے انکاونٹر میں ہلاک کردیا۔ اس کے بعد سے ہی یوپی کی سیاست گرمائی ہوئی ہے۔ سماجوادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو، بی ایس پی سربراہ مایاوتی اور آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسد الدین اویسی سمیت کئی جماعتوں کے لیڈران نے اس انکاونٹر پر سوال اٹھائے ہیں۔ وہیں اب ادھیکار سینا کے قومی صدر امیتابھ ٹھاکر نے اسد اور شوٹر غلام محمد کے انکاونٹر کے معاملے میں سنگین سوال کھڑے کرتے ہوئے قومی انسانی حقوق کمیشن (این ایچ آرسی) سے معاملے میں شکایت کی ہے۔
امیتابھ ٹھاکر نے ڈپٹی ایس پی ایس ٹی ایف نویندو کمار کے ذریعہ جھانسی میں درج کرائے گئے تین ایف آئی آر اور ایس ٹی ایف کے ذریعہ اس سے متعلق جاری کئے گئے موقع کے مختلف فوٹو گراف کی بنیاد پر خدشات والے 12 نکات بتائے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ یہ سارے نکات اس انکاونٹر کی صداقت پر سنگین سوال اٹھاتے ہیں۔
ان نکات میں ایس ٹی ایف کے ذریعہ ایف آئی آر میں موقع پر اسد اور غلام محمد کے زندہ رہنے کے دعوے، موقع پر ان دونوں کے جسم کی پوزیشن، خود جائے حادثہ کی صورتحال، حادثہ سے برآمد موٹرسائیکل کی صورتحال، مہلوکین کے ذریعہ پستول کے پکڑے جانے کی صورتحال وغیرہ کی بنیاد پر رکھے گئے سوال شامل ہیں۔
امیتابھ ٹھاکر نے اپنی شکایت میں کہا ہے کہ یہ قانون کا طے شدہ اصول ہے کہ ریاست یا کسی بھی شخص کو کسی دوسرے شخص کو قتل کرنے کا کوئی حق نہیں ہے اور کسی بھی شخص کی جان صرف عدالتی عمل کے مطابق ہی لی جاسکتی ہے۔ ایک شخص کو خطرناک مجرم ہونے کے نام پرقتل نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ اگرایسی صورت حال پر قابو نہ پایا گیا تونظام مکمل طور پرافراتفری کا شکار ہو جائے گا۔
امیتابھ ٹھاکر نے کن نکات پر سوال اٹھائے؟
سابق آئی پی ایس امیتابھ ٹھاکر نے اپنی شکایت میں عتیق احمد کے بیٹے کے انکاؤنٹر پر 12 سوالات اٹھائے ہیں۔
1- ایف آئی آر میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ جب انکاؤنٹرختم ہوا تو اسد اورغلام محمد زندہ تھے۔ اس کے برعکس ایس ٹی ایف کی طرف سے جاری کی گئی تصاویر میں اسد اور غلام محمد کسی بھی طرح زندہ نظرنہیں آرہے ہیں۔ تصویروں سے واضح ہوتا ہے کہ اسد اورغلام محمد موقع پرہی موت ہوچکی تھی اوروہ فوٹو گراف مردہ افراد کے تھے۔ نہ کہ درد سے کراہ رہے افراد کے۔ جیسا کہ ایف آئی آر میں دعویٰ کیا گیا ہے۔ اس سے ایف آئی آر میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ انکاؤنٹر ختم ہونے کے بعد اسد اورغلام محمد زندہ تھے اورانہیں ایمبولینس سے اسپتال بھیجا گیا تھا۔
2- اسی طرح اسد سے متعلق ایک تصویر میں جس پوزیشن میں اسے دکھایا گیا ہے، وہ موٹرسائیکل کے ہینڈل کے نیچے پڑا ہوا ہے۔ یہ کسی صورت ممکن نہیں کہ گرنے کے بعد کوئی آدمی موٹر سائیکل کے ہینڈل کے نیچے آجائے۔ اس کے برعکس اگروہ موٹرسائیکل پرگرے گا تو اس کا جسم موٹرسائیکل کے اوپرہوگا نہ کہ موٹرسائیکل کے ہینڈل کے نیچے۔ اس لئے جس اندازمیں اسد کی لاش موٹرسائیکل کے ہینڈل کے نیچے دکھائی گئی ہے، اس سے شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔
3-اسی تصویرمیں جس طرح سے اسد کے ہاتھ میں ایک پستول بند مٹھی میں دکھایا گیا ہے، ابتدائی طور پر یہ میڈیکو لیگل تھیوری سے درست نہیں لگتا کیونکہ میڈیکو لیگل تھیوری کے مطابق پستول نیچے سے گرا ہوتا۔ جیسے ہی اس کا ہاتھ زخمی ہوگیا۔
اسد کی اس تصویرمیں ان کے بالکل ساتھ ایک خالی پستول نظر آرہا ہے اورایک سایہ نظرآرہا ہے، یہ واضح نہیں ہے کہ یہ کس کا سایہ ہے۔ یہ سایہ اس واقعے کی حقیقت پر بھی سوالات اٹھا4- رہا ہے۔
5-ایک اورتصویرمیں، جس میں غلام محمد اسد کے بالکل ساتھ نظرآ رہا ہے، وہ پستول نظرنہیں آ رہا ہے۔ اس سے ایسا لگتا ہے کہ جگہ بنانے کی مختلف کوششیں کی گئی ہیں اور اس دوران ایس ٹی ایف کے لوگوں کی طرف سے مسلسل فوٹوگرافی کی گئی ہے۔
6-اسی طرح تصویرمیں غلام محمد جس انداز میں پستول تھامے نظرآرہا ہے وہ میڈیکو لیگل اصول کے مطابق ممکن نہیں ہے۔
7-مختلف تصاویرمیں غلام محمد کی سینڈل کی پوزیشن بھی مختلف اندازمیں نظرآرہی ہے، جس سے یہ سارا واقعہ بھی مشکوک نظرآتا ہے۔
8-ایف آئی آر میں ڈپٹی ایس پی نویندو کمار نے دعویٰ کیا ہے کہ موٹرسائیکل پھسل کرببول کے درخت میں گرپڑی، جس کے بعد دونوں نے زمینی آڑلے کرفائرنگ شروع کردی۔ اس کے برعکس جائے وقوعہ کی صورتحال سے صاف نظرآتا ہے کہ مبینہ جگہ کچی سڑک کے بالکل ساتھ ہے۔ کچی سڑک اوپرہے اورکرائم سین نیچے ہے۔ جائے حادثہ بالکل کھلا مقام ہے، جہاں کوئی بھی آڑ نہیں ہے۔ واضح ہے کہ وہاں سے کوئی آڑ لے کر فائرنگ نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس کے برعکس پولیس اہلکارمحفوظ پوزیشن میں تھے۔ اس طرح ایف آئی آرکا یہ نکتہ بھی درست معلوم نہیں ہوتا۔
9-اس جگہ کی دکھائی گئی تصاویرمیں کہیں سے سلپ کرنے یا پھسلنے کے کوئی نشان نہیں ہے، جو موٹر سائیکل پھسلنے کے دعوے کو غلط بتاتے ہیں۔
10-موٹرسائیکل کا ٹائربالکل صاف ہے اور اس پر کسی بھی طرح کے دھول وغیرہ کے نشان نہیں ہیں۔
11-ایف آئی آر کے مطابق انکاونٹر12:55 بجے دن میں ختم ہوگیا تھا، لیکن نریندر کمار کے ذریعہ ایف آئی آر رات میں 11:55 بجے رات میں یعنی انکاونٹر ختم ہونے کے 11 گھنٹے بعد کرائی گئی، جو اپنے آپ میں شک پیدا کرنے کی ایک وجہ ہے۔
12- نیوز چینلوں نے تقریباً 1:00 بجے دن میں ان بدمعشاوں کے مارے جانے کی خبر نشر کی جبکہ ایف آئی آر کے مطابق، اس وقت تک دونوں بدمعاش زندہ تھے اور انہیں اسپتال بھیجا جا رہا تھا۔ یہ بات بھی اس حادثہ کی صداقت پر خدشہ ظاہر کرتا ہے۔