نوح اور منی پور میں ہو رہے تشدد پر جماعت اسلامی ہند نے کیا تشویش کا اظہار اور گیان واپی سروے پر دیا یہ بڑا بیان...
Jamat-E-Islami Hind: جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر انجنیئر محمد سلیم نے جماعت کی ماہانہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ججوں کی تقرری میں کسی بھی طرح کی سیاست نہیں ہونی چاہئے اور نہ ہی اس میں حکومت کی مداخلت ہو۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ نظام ایک ایسا نظام ہے جو عوام کی امید ہوتی ہے جس پر عوام یقین کرتی ہے کہ اگر ان کے کسی مسئلہ کا حل کہیں مل سکتا ہے تو وہ عدالت ہے۔ انجنیئر سلیم نے کہا کہ جمہوریت میں عدلیہ کو آزاد ہونا چاہئے۔ ججوں کی تقرری پارلیمنٹ یا سیاست دانوں سے متاثر نہیں ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی ہند عدلیہ کے اس موقف سے متفق ہے کہ کالجیم نظام شاید کامل نہ ہو لیکن یہ ملک کا قانون ہے اور میرٹ کے اصولوں پر مبنی ہے۔ کالجیم نظام کوفی الحال یہ کہ کر نہیں چھیڑنا چاہئے کہ وہ سماجی تنوع کو قائم رکھنے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے اور اس میں پسماندہ طبقے، حاشیے پر کھڑے لوگوں، اقلیتی برادریوں کی مناسب نمائندگی نہیں ہے۔ اگر عدلیہ کی تشکیل میرٹ کے علاوہ کسی اور بنیادپر ہوگی تو اس کے شفاف معیار پر سمجھوتہ کرنے کے مترادف ہوگا جس کا انصاف کی فراہمی کے نظام پر منفی اثر پڑے گا۔
مرکزی بجٹ 2023 میں اقلیتوں کی حصہ داری پر جماعت اسلامی نے کیا کہا؟
جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر انجنیئر سلیم نے کہا کہ مرکزی بجٹ ایک ایسی مشق ہے جس سے ملک کی اقتصادی پالیسیوں کو آگے بڑھانے میں مدد ملتی ہے۔ اسے معاشی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے ساتھ عام آدمی کی ضروریات کو پورا کرنے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ وزیر خزانہ کے ذریعہ پیش کردہ حالیہ بجٹ 2023 کو اقتصادی ترقی اور مالیاتی استحکام پر توجہ مرکوز کرنے کا سہرا دیا جا سکتا ہے۔ اب 7 لاکھ روپے سالانہ تک کی آمدنی والوں کو کوئی انکم ٹیکس ادا نہیں کرنا پڑےگا جبکہ اب سے پہلے 5 لاکھ سے زیادہ کمانے والے ٹیکس کے دائرے میں تھے۔ اس تبدیلی سے ملازم پیشہ طبقے کو فائدہ ملے گا۔ ایک اور مثبت پہلو ہے کیپٹل ایکسپنڈیچر میں اضافہ، جس کا بجٹ اب 13.7 لاکھ کروڑ روپے ہے جو جی ڈی پی کا 4.5 فیصد ہے۔ اسی طرح تعلیم کے لئے مختص رقم میں اضافے کے باوجود یہ اب بھی جی ڈی پی کا محض 2.9 فیصد ہے۔ جماعت کا مطابہ ہے کہ صحت کے لئے جی ڈی پی کا کم سے کم 3 فیصد اور تعلیم کے لئے 6 فیصد رقم مختص کیا جانا چاہئے۔ یہ بجٹ مہنگائی، اشیاء کی بڑھتی قیمتوں اور بے روزگاری جیسے بنیادی مسائل کو حل کرنے میں قتعی ناکام ہے۔ کانفرنس میں مزید کہا گیا کہ یہ بجٹ وزیراعظم کا نعرہ سب کا وکاس سے بھی مطابقت نہیں رکھتا ہے کیونکہ اس میں اقلیتوں کے لئے مختص بجٹ 5000 کروڑ روپے سے کم کرکے تقریباً 3000 کروڑ روپے کر دیا گیا ہے۔ جماعت نے الزام لگایا کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ بجٹ کارپوریٹس کے مفاد کو پورا کرتا ہے نہ کہ عام آدمی کی ضرورتوں کو۔
-بھارت ایکسپریس