مولانا محمود اسعد مدنی نے سپریم کورٹ کے ذریعہ مدارس کے خلاف کارروائی پر روک لگانے کا استقبال کیا ہے۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے بلڈوزرکارروائیوں کے خلاف جمعیۃ علماء ہند کے صدرمولانا محمود اسعد مدنی اور سکریٹری مولانا نیازاحمد فاروقی کی عرضی پرسماعت کرتے ہوئے ایک عبوری حکم جاری کیا ہے کہ ملک کے کسی کونے میں یکم اکتوبر2024 تک بلڈوزرنہیں چلایا جائے گا۔ عدالت نے واضح کیا کہ یہ حکم عوامی سڑکوں، فٹ پاتھ، ریلوے لائنوں اورآبی ذخائرمیں درپیش تجاوزات پرفی الحال لاگونہیں ہوگا، لیکن بلڈوزرجسٹس کی مہیما منڈل قبول نہیں کی جائے گی۔ جسٹس بی آر گوئی اورکے وی وشواناتھن پرمشتمل بنچ نے یہ ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا کہ کسی جرم یا واقعہ کے بعد کسی کے گھرکوگرانے کی اجازت فی الحال نہیں ہے۔ عدالت نے ان معاملات کی اگلی سماعت کے لیے یکم اکتوبرکی تاریخ مقرر کی۔
مولانا محمود اسعد مدنی نے کیا خیرمقدم
صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی نے سپریم کورٹ کی کارروائی کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے کہ بلڈوزرکوانصاف کی علامت سمجھا جاتا ہے، جوعدالتی عمل اورآئینی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ سپریم کورٹ نے مرکزی وزراء کے غیر ذمہ دارانہ بیانات کا نوٹس لے کرقابل تحسین بات کہی ہے ۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ایسے بیانات پر فوری روک لگائی جائے تاکہ انصاف کی بالادستی برقرار رہے اور قانون کا غلط استعمال نہ ہو۔
سالسٹر جنرل نے عدالت کے حکم پرکیا اعتراض
سالسٹر جنرل تشارمہتا نے عدالت کے حکم پر اعتراض اٹھایا کہ قانونی حکام کے ہاتھ اس طرح نہیں باندھے جا سکتے۔ تاہم بنچ نے جواب دینے سے انکارکردیا اورکہا کہ اگرانہدامات دوہفتوں کے لئے روک دیئے جائیں تو آسمان نہیں گرے گا۔ عدالت نے کہا کہ اس نے آئین کے آرٹیکل 142 کے تحت اپنے خصوصی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے یہ ہدایت جاری کی ہے۔ ”اگر ایک بھی غیرقانونی انہدام ہوتا ہے تو یہ آئین کے اصولوں کے خلاف ہے۔ ہم نے واضح کردیا ہے کہ ہم غیرمجازتعمیرات کے معاملے میں مداخلت نہیں کریں گے، لیکن انتظامیہ جج نہیں بن سکتی۔ سماعت کے دوران جمعیۃ علماء ہند کے وکیل ایم آرشمشاد اورایڈوکیٹ آن ریکارڈ فرخ رشید سمیت کئی اہم وکیل موجود تھے۔ عدالت نے سوال کیا کہ 2024 میں اچانک جائیدادیں کیوں مسمار کی گئیں۔ عدالت نے اس بات پرزوردیا کہ وہ غیرمجازتعمیرات کومسمارکرنے کے اختیارات کے غلط استعمال کو روکنے کے لئے ہدایات جاری کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
عدالت نے حکومت پراٹھائے سوال
جسٹس وشوناتھن نے کہا کہ اگلی تاریخ تک عدالت کی اجازت کے بغیرانہدام پر پابندی ہے۔ سالیسٹر جنرل نے کہا کہ ایک ”بیانیہ” بنایا جا رہا ہے کہ ایک خاص برادری کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جسٹس وشوناتھن نے کہا کہ باہرکی آوازیں عدالت کومتاثرنہیں کررہی ہیں۔ ہم اس وقت، کس برادری کا معاملہ ہے، اس میں نہیں جائیں گے۔ اگرایک بھی غیرقانونی انہدام ہوتا ہے تویہ آئین کے اصولوں کے خلاف ہے۔ عدالت نے اس بات پرسخت غصہ کا اظہارکیا کہ پچھلے حکم کے بعد (جہاں اس نے ہدایات جاری کرنے کے ارادے کا اظہار کیا تھا) مرکزی سرکارکے کچھ وزیروں کی طرف سے ایسے بیانات دیے گئے کہ ’’بلڈوزرچلتے رہیں گے‘‘ جسٹس بی آرگوئی نے کہا۔ 2 ستمبر کے بعد ایسی دھمکیاں اورجوازپیش کئے گئے، کیا یہ ہمارے ملک میں ہونا چاہئے؟
جہانگیرپوری میں 2022 میں ہوئی تھی انہدامی کارروائی
سپریم کورٹ میں 2022 میں دائردرخواستوں کا تعلق دہلی کے جہانگیرپوری میں اپریل 2022 میں ہونے والی انہدامی مہم سے تھا، جسے بعد میں روک دیا گیا۔ عرضی گزاروں نے موقف اختیارکیا تھا کہ حکام سزا کے طور پربلڈوزرکا استعمال نہیں کرسکتے۔ ستمبر 2023 میں سماعت کے دوران، سینئر وکیل کپل دیو نے حکومتی رویے پر تشویش ظاہرکی تھی۔ انھوں نے آئین کے آرٹیکل 21 کے تحت گھر کے حق کا دفاع کیا اور مسمار شدہ گھروں کی تعمیر نوکا مطالبہ کیا تھا۔ مدھیہ پردیش اور راجستھان میں انہدامی کارروائیوں کے خلاف ہنگامی ریلیف کی عرضیاں جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے حال میں داخل کی گئیں، اس کے بعد یہ سماعت ہو رہی ہے۔
جمعیۃعلماء ہند کی طرف سے پیش کردہ گائیڈ لائن کے چند اہم نکات
(۱) حکام یا بلدیاتی ادارے ایسے افسران کا تقرر کریں گے جو انہدام سے متعلق عدالتوں یا متعلقہ حکام کو جوابدہ ہوں گے( ۲ ) یہ افسران ڈویژنل کمشنر یا مساوی افسر کو رپورٹ کریں گے۔(۳ ) انہدام کا فیصلہ کرنے سے پہلے افسر کو علاقے کا سروے کرنا ہوگا تاکہ یہ طے کیا جا سکے کہ کتنے مکانات بلدیاتی قوانین کے تحت انہدام کے قابل ہیں(۴ ) ان گھروں کی فہرست تیار کی جائے گی جنہیں مکمل یا جزوی طور پر مسمار کیا جانا ہے(۵) متاثرہ مکانات کے مالکان یا رہائشیوں کو انہدام سے کم از کم 60 دن پہلے تحریری نوٹس دیا جائے گا(۶)نوٹس میں انہدام کی وجوہات بیان کی جائیں گی اور یہ بذریعہ دستی،رجسٹرڈ پوسٹ اور میونسپل ویب سائٹ پر اپلوڈ کیا جائے گا(۷)نوٹس مقامی زبان میں بھی فراہم کیا جائے گا۔(۸) انہدام سے 10 دن قبل افسر کو ایک حلف نامہ داخل کرنا ہوگا جس میں یہ تصدیق کی جائے گی کہ نوٹس موجودہ رہنما اصولوں کے مطابق فراہم کیا گیا ہیاور اسے ڈویژنل کمشنر کے دفتر میں جمع کروایا جائے گا(۹)متاثرہ افراد 15 دن کے اندر نوٹس کے خلاف اپیل کر سکتے ہیں، اور متعلقہ اتھارٹی 15 دن کے اندر سماعت کے بعد فیصلہ کرے گی(۱۰ ) اپیل کے زیر التوا ہونے کی صورت میں، جب تک فیصلہ نہیں آتا، انہدام نہیں کیا جا سکتا۔(۱۱ ) اگر اپیل خارج ہو جائے تو مکینوں کو 10 دن کی مہلت دی جائے گی تاکہ وہ اپنی جگہ خالی کریں(۱۲ ) انہدام صرف ایک یا چند گھروں کو نشانہ بنا کر نہیں کیا جانا چاہیے۔ حکام کو پورے علاقے میں غیر قانونی تعمیرات کی نشاندہی کرنی ہوگی اور تمام انہدامات کے لیے ایک شیڈول مقرر کرنا ہوگا۔ (۱۳) کسی ایک گھر کو اس وقت تک مسمار نہیں کیا جانا چاہیے جب تک کہ پورے علاقے کی غیر قانونی تعمیرات کا منصفانہ جائزہ نہ لے لیا جائے۔(۱۴) ان اصولوں کی خلاف ورزی کرنے والے افسران کو سزائیں دی جائیں گی اور متاثرہ افراد کو مناسب معاوضہ فراہم کیا جائے گا۔(۱۵) خلاف ورزیوں کو توہین عدالت سمجھا جائے گا جیسا کہ ڈی کے باسو بمقابلہ ریاست مغربی بنگال کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے میں بیان کیا گیا ہے۔یہ رہنما اصول ریاستی حکام کی طرف سے انجام دی جانے والی انہدامی سرگرمیوں میں شفافیت، انصاف، اور مناسب عمل کو یقینی بنانے کے لیے بنائے گئے ہیںجو جمعیۃ علماء ہند کے سینئروکیل ایم آرشمشاد نے تیار کیا ہے ۔
بھارت ایکسپریس–