Bharat Express

Bharat Express Urdu Conclave: ’’اسی ملک کے رہنے والے ہیں مسلمان‘‘…، بزمِ صحافت میں مولانا ارشد مدنی نے کہا- انگریزوں کے خلاف سب سے پہلے علمائے کرام نے اٹھائی تھی آواز

مولانا ارشد مدنی نے بزمِ صحافت سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے مجھے اپنے پرخلوص محبت کی بنیاد پر بلایا، اس کے لیے میں آپ کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ صورتحال یہ ہے کہ مسلمان ہندوستان کو اپنا ملک سمجھتے ہیں اور ہم ہمیشہ سے اسی ملک کے رہنے والے ہیں۔ یہ کہنا غلط ہے کہ مسلمان ہندوستان کو اپنا ملک نہیں مانتے۔

بھارت ایکسپریس اردو کانکلیو میں مولانا ارشد مدنی کی شرکت

Bharat Express Urdu Conclave: بھارت ایکسپریس نیوز نیٹ ورک کی اردو ٹیم کی جانب سے قومی دارالحکومت دہلی میں اردو صحافت پر مبنی ’بزمِ صحافت‘ اردو کانکلیو کا انعقاد کیا گیا۔ اس پروگرام میں صحافت، تعلیم اور سیاست سے وابستہ کئی نامور شخصیات نے شرکت کی۔ اس پروگرام میں جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے شرکت کی۔ اس پروگرام کے دوران انہوں نے تحریک آزادی سے متعلق کئی دلچسپ حقائق بیان کیے۔

’’اسی ملک کے رہنے والے ہیں مسلمان‘‘

مولانا ارشد مدنی نے بزمِ صحافت سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے مجھے اپنے پرخلوص محبت کی بنیاد پر بلایا، اس کے لیے میں آپ کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ صورتحال یہ ہے کہ مسلمان ہندوستان کو اپنا ملک سمجھتے ہیں اور ہم ہمیشہ سے اسی ملک کے رہنے والے ہیں۔ یہ کہنا غلط ہے کہ مسلمان ہندوستان کو اپنا ملک نہیں مانتے۔ ہندوستان کی جو برادری ہے، جو برہمن ہیں، وہ ہندو بھی ہے اور برہمن مسلمان ہے، اگر راجپوت ہیں تو راجپوتوں کی ایک بڑی تعداد مسلمانوں میں بھی ہے۔ جاٹ ہندو بھی ہے اور جاٹ مسلمان بھی ہے۔ اس لیے کوئی بھی ایسی برادری نہیں ہے جس کا مسلمان حصہ نہ ہو۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم ہمیشہ سے اس ملک میں رہتے آئے ہیں، اسی ملک کے رہنے والے ہیں، ہم اس ملک کو اپنا ملک سمجھتے ہیں۔

’’انگریزوں کے خلاف علمائے کرام نے اٹھائی آواز‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ ہم پر غلامی کا دور گزرا اور یہ سب کے اوپر گزرا۔ ہندو بھی غلام رہا، مسلمان بھی غلام رہا اور یہ غلامی 10-20 سال کی نہیں، تقریباً 250 سال کی تھی، لیکن جن کو مذہبی لوگ کہا جاتا ہے ’علما‘ جب انہوں نے سمجھا کہ ملک کو غلام ہو گیا، تو انہوں نے یہ کہا کہ ہم غلام ہو گئے۔ اس لیے اس غلامی کی زنجیر کو توڑنے کے لیے ہمیں جہاد کرنا ہو گا۔ جب ٹیپو سلطان کو 1799 میں بنگلور میں شہید کیا گیا۔ پھر وہاں سے میسور کے بعد نظام حیدرآباد پر قبضہ کرنے 1803 میں انگریزوں نے دہلی میں آ کر اعلان کر دیا کہ خط خدا کی جائے کہ ملک شاہ عالم ظفر کا ہے لیکن حکم ایسٹ انڈیا کمپنی کا چلے گا۔ اس دن ملک کی ملک کی آزادی کے لئے سب سے پہلے حضرت شاہ ولی اللہ صاحب نے اسی دہلی کے اندر سے اعلان کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ملک غلام ہو گیا ہے ،اس لیے غلامی کی زنجیر کو توڑنا ملک کے ہر فرد کا فرض ہے۔ یہ علمائے کرام کے طرف سے پہلا فتویٰ تھا۔

اس بارے میں بات کرتے ہوئے مولانا مدنی نے مزید کہا کہ ملک میں کئی بڑے بادشاہ اور شہنشاہ ہوئے لیکن کسی کے اندر اتنی ہمت نہیں تھی کہ انگریزوں کے خلاف ایسی آواز اٹھاتے۔ اسی لیے حضرت شاہ ولی اللہ صاحب جیسے لوگ تھے، جنہیں حکومت کرنے کا شوق نہیں تھا۔ انہوں نے صرف اس بنیاد پر آواز اٹھائی کہ ہم آزاد تھے لیکن اب ہم غلام بن ہو گئے ہیں، اس لیے اس غلامی کی زنجیر کو ہر حال میں توڑنا ہے، لیکن شاہ ولی اللہ صاحب کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑی اور انہیں دہلی سے باہر کر دیا گیا۔ ان کی جائیداد کی قرقی ہو گئی۔ ان کے مدرسہ کو زمین میں دفن کر دیا گیا۔ انہیں زہر دے دیا گیا جس کی وجہ سے وہ برس کے مریض ہو گئے۔ اس نے یہ تمام مظالم برداشت کیے لیکن ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹے۔ یہ علمائے کرام کی تاریخ ہے، انہوں نے ملک کو آزاد کرانے کے لیے اپنے دو شاگردوں کو تیار کیا، جن میں ایک ان کے خاندان سے تھا، ان کا نام سید احمد شہید تھا، جو رائے بریلی کے رہنے والے تھے۔ انہوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کو متحد کرنے کے لیے پورے ہندوستان کا دورہ کیا۔

’’علمائے کرام نے صرف ملک کی آزادی کے لیے جنگ لڑی‘‘

انہوں نے کہا، اس کا اثر بھی نظر آیا اور 1857 میں دہلی، سنبھل اور مرادآباد جیسے شہروں میں تحریک شروع ہوئی۔ اس دوران دہلی میں 30 ہزار مسلمانوں کو درختوں سے لٹکا دیا گیا، لیکن یہ بات کوئی نہیں جانتا۔ یہ تاریخ ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں نے ملک کو آزاد کرانے کے لیے کتنی قربانیاں دیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ جدوجہد آزادی میں صرف مسلمان تھے، اس لڑائی میں ملک کے بہت سے لوگ تھے، جنہوں نے ملک کے لیے اپنی جانیں قربان کیں۔ لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ٹیپو سلطان نے اس لیے جنگ لڑی کیونکہ کہ انہیں اپنی ریاست بچانی تھی، لیکن علمائے کرام کوئی حکومت نہیں بچانی تھی، اس لیے انہوں نے یہ جنگ صرف ملک کو آزاد کرانے کے لیے لڑی۔

بھارت ایکسپریس۔

Also Read