جمعیت علماء ہند کے بعد اب آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے بھی ملک کے مختلف حصوں میں مساجد اور درگاہوں پر دعووں کو لے کر جاری عدالتی لڑائیوں پر سپریم کورٹ سے مداخلت کی درخواست کی ہے۔ بورڈ نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں چیف جسٹس سنجیو کھنہ سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ نچلی عدالتوں کو ایسے دعوؤں کی سماعت سے روکنے کے لیے از خود نوٹس لیں۔بورڈ نے کہا ہے کہ یہ مرکز اور ریاستوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے ذریعہ منظور کردہ قانون (عبادت کے مقامات ایکٹ، یعنی ورشپ ایکٹ) کو مؤثر طریقے سے نافذ کریں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو پورے ملک میں دھماکہ خیز صورتحال پیدا ہو سکتی ہے، جس کے لیے سپریم کورٹ اور مرکزی حکومت ذمہ دار ہوگی۔
اے آئی ایم پی ایل بی کے ترجمان سید قاسم الیاس نے ایک بیان میں کہا کہ “پرسنل لاء بورڈ ملک بھر کی مختلف عدالتوں میں مساجد اور درگاہوں کے خلاف دعووں پر گہری تشویش کا اظہار کرتا ہے۔ ایسے دعوے قانون اور آئین کا کھلا مذاق ہیں۔ عبادت گاہوں کے قانون، 1991 کے پیش نظر، اس طرح کے دعووں کی کوئی بنیاد نہیں ہے کیونکہ پارلیمنٹ کے ذریعہ منظور کردہ قانون یہ واضح کرتا ہے کہ 15 اگست 1947 تک کسی بھی عبادت گاہ کی حیثیت برقرار رہے گی اور اسے چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔”
مقامی عدالت میں ایک مقدمہ دائر کیا گیا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اجمیر کی درگاہ شیو مندر ہے۔ عدالت نے اس عرضی کو سننے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ عدالت نے اجمیر درگاہ کمیٹی، اقلیتی امور کی وزارت اور آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) کو نوٹس جاری کرکے ان سے جواب طلب کیا ہے۔سنبھل جامع مسجد کے بعد یہ دوسرا معاملہ ہے جہاں عدالت نے فوری طور پر ایسی عرضی کو سننے کیلئے حامی بھردی ہے جس سے ماحول خراب ہونے کا خدشہ بڑھتا چلا جارہا ہے۔
بھارت ایکسپریس۔